بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی صحیح تربیت نہ کرنے کے اندیشہ اور وہم سے وقفہ کرنے کا حکم


سوال

 شادی کے بعد اس مقصد سے بچے پیدا کرنے سے رکنا کہ کل کو اگر تربیت نہ ہو سکے اور اس میں مشکلات ہوں، تو اس کا حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی، اور دین اسلام نے اولاد کی اچھی تربیت کرنے کا حکم دیا ہے،یہ ہی وجہ ہے کہ  قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں،اور اولاد کی اچھی تربیت کرنے پر حدیث شریف میں ایسے شخص کے لیے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جس نے دو بچیوں کی جوان ہونے تک پرورش کی میں اور وہ ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے اپنی انگلیوں کو ملایا"۔اور " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی تین لڑکیاں  یا تین بہنیں ہوں، یا دو لڑکیاں   یا دو بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اور خوش دلی سے انہیں برداشت کرے اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے تو وہ جنت میں داخل ہوگا "۔ اور  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  "جس کسی کی لڑکی ہو پھر وہ اسے نہ زندہ درگور کرے نہ اس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالی اسے جنت میں داخل کرے گا۔

مزید یہ کہ اولاد کی  اچھی تربیت کرنے کی صورت میں وہ انسان کے لیے مرنے کے بعد  صدقہ جاریہ بھی ہوتی ہے، حدیث شریف میں ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے جو اس کے لیے دعا کرے۔

اس لیے شریعت نے نکاح کا حکم دیاہے، اور  نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد  کی کثرت مطلوب اور محمودبھی  ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ  مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اس لیےمحض اس وجہ سے کہ "کل کو اولاد کی تربیت نہ ہوسکےاور مشکلات کا سامنا ہوگا " بچوں کے پیدا کرنے سے رکنا یہ سوچ و فکر شرعا درست نہیں ہے بلکہ والدین کو اس بارے میں بڑوں سے رہنمائی لینی چاہیے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کیسے کرسکتے ہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے اولاد کی اچھی تربیت کے بارے میں غور وفکر کرے، اور اس کے لیے اللہ تعالی سے دعائیں مانگیں، اور آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں کہ آپ  ﷺ نے تربیت کیسے فرمائی، اور اسی طرح' تربیت اولاد'  کے نام سے جو کتابیں لکھی گئی ہے اس کا مطالعہ ان شاء اللہ مفید ہوگا،  اس لیے محض شک  اور وہم کی بناء پر(کہ تربیت نہ ہوسکے گی)  شادی کے بعد بچے پیدا نہ کرنا مناسب نہیں ہے۔

مشكاۃ المصابيح میں ہے:

"وعنه قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العزل فقال: «ما من كل الماء يكون الولد وإذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء» . رواه مسلم."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب المباشرة، ‌‌الفصل الأول، ج: 2، ص: 952، رقم: 3187، ط: المكتب الإسلامي)

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أنس بن مالك. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ‌عال ‌جاريتين حتى تبلغا، جاء يوم القيامة أنا وهو وضم أصابعه."

(كتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الإحسان إلى البنات، ج: 4، ص: 2027، رقم: 2631، ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له ثلاث بنات أو ثلاث أخوات ‌أو ‌ابنتان ‌أو ‌أختان فأحسن صحبتهن واتقى الله فيهن فله الجنة»."

(أبواب البر والصلة، ‌‌باب ما جاء في النفقة على البنات والأخوات، ج: 4، ص: 320، رقم: 1916، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح وبه جزم القهستاني أيضا حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء لفساد الزمان وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ... قلت: لكن في البزازية أن له منع امرأته عن العزل. اهـ. نعم النظر إلى فساد الزمان يفيد الجواز من الجانبين. فما في البحر مبني على ما هو أصل المذهب، وما في النهر على ما قاله المشايخ والله الموفق."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب نكاح الرقيق، ج: 3، ص: 176، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل عزل عن امرأته بغير إذنها لما يخاف من الولد السوء في هذا الزمان فظاهر جواب الكتاب أن لا يسعه وذكر هنا يسعه لسوء هذا الزمان كذا في الكبرى."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، ج: 5، ص: 356، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503100321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں