بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1446ھ 23 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی رسمِ بسم اللہ کا حکم


سوال

ہمارے اکابر اپنے بچوں کی بسم اللہ خوانی کیا کرتے تھے، تو بسم اللہ خوانی کرنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے اور اس کا طریقہ کار کیا ہے؟

جواب

بچے کی تعلیم میں خیر وبرکت کی نیت سے اسے کسی نیک وصالح بزرگ کے پاس لے جاکر پہلا سبق پڑھوا دینا اگر تکلفاتِ غیر شرعیہ اور ریاء ونمود سے خالی ہو، تو مباح ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم اسے سنت یا مستحب سمجھنے، یا اس پر اصرار کرنے اور نہ کرنے والوں پر نکیر کرنے سے یہ مباح عمل بدعت بن جائے گا، اس صورت میں اس سے احتراز لازم ہوگا۔

’’فتاویٰ محمودیہ‘‘ میں ہے:

’’سوال: یہاں پر بسم اللہ خوانی کا رواج ہے، یہ جائز ہے یا نا جائز؟ اس کا شمار بدعت میں ہوگا یا نہیں؟ جب کہ اس کو جزوِ دین نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ایک رواج اور موقع خوشی ہے کہ بچے کی تعلیم کا اب آغاز ہو رہا ہے، تو ایسے موقع پر دعوت وغیرہ کی جاتی ہے، تو ایسی دعوت قبول کی جاسکتی ہے یا نہیں؟

الجواب حامدًا ومصلیًا:

کسی بزرگ وصالح شخص سے بسم اللہ کرادی جائے، اور کچھ غرباء واحباب کو کھلا پلا دیا جائے تاکہ بچے کی تعلیم میں برکت ہو تو درست ہے، مگر تکلفات وریاء وفخر سے بچنا لازم ہے۔‘‘

(باب البدعات والرسوم، ۳/ ۲۹۰، ط: ادارۃ الفاروق)

’’کفایت المفتی‘‘ میں ہے:

’’سوال: بچے کو سبق شروع کراتے وقت کی بعض غلط رسومات: ۱- مہمان داری کرنا۔ ۲- نقرئی دوات وقلم سے نقرئی تختی پر لکھوا کر استاد کو دینا۔ ۳- شیرینی مع رکابی نام کندہ شدہ تقسیم کرنا۔ ۴- ڈو منیوں کا ناچ گانا کرانا؟

جواب: ۱- بسم اللہ کی رسم بھی مباح ہے، مگر مسنون یا مستحب نہیں، اور حیثیت سے زیادہ کرنا یا ریاء ونمود کی غرض سے کرنا یا لازمی رسم قرار دینا جائز نہیں۔ ۲- استاد کو نقد بقدرِ وسعت دے دینا بہتر ہے، نقرئی دوات قلم تختی کی رسم ایجاد بندہ ہے اور نا جائز ہے۔ ۳- بقدرِ وسعت کچھ تقسیم کرنا مباح ہے، لیکن اگر سدِ باب کے لیے ان رسموں کو موقوف کردیا جائے تو بہر صورت بہتر ہے۔ ۴- نا جائز ہے۔‘‘

(کتاب الحظر والاباحہ، ۹/ ۸۳، ط: دار الاشاعت کراچی)

’’بہشتی زیور‘‘ میں ہے:

’’جب لڑکا بولنے لگے اس کو کلمہ سکھاؤ، پھر کسی دیندار بزرگ متبرک کی خدمت میں لے جاکر بسم اللہ کہلا دو، اور اس نعمت کے شکریہ میں اگر دل چاہے تو بلا پابندی کے جو توفیق ہو چھپا کر خدا کی راہ میں کچھ خیر خیرات کردو، لوگوں کو دکھلا کر ہرگز مت دو، باقی اور سب پکھنڈ ہیں، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب بچہ کی زبان کھلنے لگتی ہے تو گھر والے ابا، اما، بابا وغیرہ کہلاتے ہیں، اس کی جگہ اللہ اللہ سکھلاؤ تو کیسا اچھا ہو۔۔۔‘‘

(حصہ ششم، مکتب یعنی بسم اللہ کی رسموں کا بیان، ص: ۲۵۹، ط: توصیف پبلی کیشنز)

شرح الطيبي على المشكاة میں ہے:

"من ‌أصر علي أمر ‌مندوب، وجعله عزماً ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال، فكيف بمن ‌أصر علي بدعة ومنكر؟."

(كتاب الصلاة، باب الدعاء بعد التشهد، الفصل الأول، ٣/ ١٠٥١، ط: مكتبة نزار مصطفى)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"وسجدة الشكر: مستحبة به يفتى لكنها تكره بعد الصلاة لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه.

(قوله فمكروه) الظاهر أنها تحريمية لأنه يدخل في الدين ما ليس منه ط."

(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ٢/ ١١٩، ط: سعيد)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144612100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں