بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں كی پرورش کا حق اور بچوں کو ماں سے ملنے نہ دینا


سوال

میری ایک مطلقہ عورت سے شادی ہوئی، پچھلے شوہر سے دو بچیاں تھیں ایک کی عمر اس وقت 7 سال اور دوسری کی 5 سال ہے۔ طلاق کے وقت یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایک بیٹی شوہر کے پاس اور ایک بیوی کے پاس رہے گی۔ جب میں نے اس سے شادی کی تو شوہر نے دونوں بیٹیاں اسے حوالے کردیں پھر شوہر نے بھی دوسری شادی کرلی تو بچیوں کو والدہ سے علیحدہ کر دیا اور دونوں بچیوں کو ساتھ لے گیا اور والدہ کو ان سے ملاقات کرنے نہیں دے رہا۔ شریعت کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتائیں۔ ماں کو بچی سے ملاقات کرنے سے منع کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر والدہ ہفتہ میں ایک بار بیٹی سے ملاقات کرے اور اسے ساتھ رکھے تو شرعاً اس بات کی گنجائش ہے؟ میرا بچیوں سے کوئی قریبی رشتہ نہیں ہے۔ 

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص (سابقہ شوہر)  کے لیے شرعاً یہ جائز نہیں ہے وہ بچوں کو ان کی  والدہ سے ملنے سے روکے۔ والدہ  دن میں ایک بار ملاقات کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں اور کم سے کم ایک ہفتہ میں ملاقات تو کرانا ضروری ہے، البتہ اگر باہمی رضامندی سےبچے ہفتہ میں ایک دن والدہ کے ساتھ رہنا چاہیں تو  یہ جائز ہے اور بچوں اور والدہ کے حق میں احسان ہوگا۔  

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الولد متى كان عند أحد الأبوين لايمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده، كذا في التتارخانية ناقلاً عن الحاوي".

(باب الحضانة، ص/535، ج/1، ط/رشیدیہ)

الفقہ الاسلامی وأدلتہ میں ہے:

"قال الحنفية : إذا كان الولد عند الحاضنة، فلأبيه حق رؤيته، بأن تخرج الصغير إلى مكان يمكن الأب أن يراه فيه كل يوم. وإذا كان الولد عند أبيه لسقوط حق الأم في الحضانة، أو لانتهاء مدة الحضانة، فلأمه رؤيته، بأن يخرجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها، كل يوم. والحد الأقصى كل أسبوع مرة كحق المرأة في زيارة أبويها".

(زیارۃالولد، ص/7320،ج/10،  ط/ دارالفکر، دمشق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں