بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں کوتاہی کا حکم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہو گیا، بچے چھوٹے تھے، سات سال کی عمر تک بچوں کی پرورش مرحوم کی بیوہ(بچوں کی ماں) نے کی، اب بچوں کے دادا ان بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہ رہے ہیں، جب کہ بچوں کی ماں اپنے پاس اپنی تربیت میں ہی رکھنا چاہتی ہیں اور بچوں کے نانا بھی بچوں کی کفالت کے لیے راضی ہیں، بچوں کی ماں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے دادا آفس چلے جاتے ہیں، دادی بیمار رہتی ہیں اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بچوں کی چاچی سے کہتی ہیں، لہٰذا  ماں کو اطمینان نہیں ہے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ان بچوں کی صحیح دیکھ بھال اور فکر نہیں  کر سکے گا؛ اس وجہ سے وہ بچوں کے لباس اور خوراک کے سلسلے میں پریشان رہے گی۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتِ حال میں بھی سات سال کی عمر کے بعد دادا زبردستی بچوں کو اپنے پاس رکھ سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بچوں کی عمر سات سال سے زیادہ ہو چکی ہے اور والدہ کی طرف سے  پرورش کی مدت پوری ہو چکی ہے، سات سال کے بعد  ان کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری ان کے دادا کی ہے، دادا کو چاہیے کہ اس ذمہ داری کو بخوبی ادا کرے؛ تاکہ بچے صحیح تربیت پائیں اور ان کی والدہ بھی مطمئن رہے۔باقی اگر دادا کی رضامندی سے والدہ ان کو اپنے پاس رکھے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا. وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى.

(قوله: ولو جبرا) أي إن لم يأخذه بعد الاستغناء أجبر عليه كما في الملتقى. وفي الفتح: ويجبر الأب على أخذ الولد بعد استغنائه عن الأم لأن نفقته وصيانته عليه بالإجماع اهـ. وفي شرح المجمع: وإذا استغنى الغلام عن الخدمة أجبر الأب، أو الوصي أو الولي على أخذه لأنه أقدر على تأديبه وتعليمه. اهـ. وفي الخلاصة وغيرها: وإذا استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى، يقدم الأقرب فالأقرب ولا حق لابن العم في حضانة الجارية."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب."

(كتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:542، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں