بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی پیدائش سے متعلق احکامات و اعمالِ شرعیہ


سوال

بچوں کی پیدائش کے متعلق احکامات مطلوب ہیں!

جواب

بچوں کی پیدائش کے بعد مندرجہ ذیل اَحکام و اَعمال شریعتِ مطہرہ کی رو سے ثابت ہیں:

1.بچہ/بچی کو پاک کرنا:

بچے کی پیدائش کے بعد اس کے بدن میں جو رطوبت لگی ہوئی ہوتی ہے، اس کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ رطوبت پاک ہے، اس لیے وہ بچہ غسل سے پہلے بھی پاک ہے بشرطیکہ اس کے جسم میں خون  یا کوئی اور ناپاکی نہ لگی ہو، اور امام صاحب کے قول ہی کو مفتیٰ بہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ  صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک وہ رطوبت ناپاک ہوتی ہے، اور صاحبین کا قول احتیاط پر مبنی ہے، تاہم غسل ماہر طبیب کے مشورہ سے دیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"نقل في التاتارخانیة: أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وکذا السخلة إذا خرجت من أمها، وکذا البیضة فلایتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فیه، وهو المختار، وعندهما یتنجس، وهو الاحتیاط، قلت: وهذا إذا لم یکن معه دم، ولم یخالطه رطوبة الفرج".

(الشامية، الطهارة، باب الأنجاس، زکریا ۱/ ۵۶۴، کراچی۱/ ۳۴۹، الموسوعة الفقهیة الکویتیة۲۲/ ۲۶۰)

"في الحجة: الرطوبة التي علی الولد عند الولادة طاهرة … السخلة إذا خرجت من أمها، فتلك والرطوبات طاهرة لایتنجس بها الثوب ولا الماء، وفي الفتاوی العتابیة: هو المختار، وعندهما یتنجس وهو الاحتیاط".

(الفتاوی التاتارخانیة، الطهارة، الفصل السابع، معرفة النجاسات وأحکامها، زکریا ۱/ ۴۴۳) 

2. تحنیک کروانا:

کسی بزرگ، اللہ والے سے بچہ/بچی کی تحنیک کروائی جائے،  تحنیک لغت میں کہتے ہیں: کھجور کو باریک کرکے بچہ کے منہ کے اندر تالو پر ملنا۔ اور عرفِ شرع میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کھجور وغیرہ کو کوئی بزرگ چبا کر اپنے دانتوں سے نرم کردے، پھر اسے بچے کے تالوپر لگادیا جائے، تاکہ بچے کے منہ میں ابتدا میں ہی غذا کے ساتھ کسی بزرگ کا لعاب چلا جائے۔

اگر پکی کھجور میسر نہ ہو، تو تر کھجور سے، ورنہ کسی بھی میٹھی چیز سے تحنیک کی جاسکتی ہے،  عمومی احوال میں میٹھی چیزوں میں شہد سب سے زیادہ بہتر ہے۔

’’ صحیح مسلم ‘‘میں ہے :

’’عن أبي موسی قال : ’’ وُلد لي غلامٌ فأتیتُ به النبي ﷺ فسمّاه إبراهیم وحنّکه بتمرة‘‘.

(۲/۲۰۹، کتاب الآداب، باب استحباب تحنیك المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه وجواز التسمیة یوم ولادته الخ، ط : قدیمي)

3. کان میں اذان و اقامت :

اس کے بعد مستحب یہ ہے کہ اس کے داہنے  کان میں اذان دی جائے اور بائیں کان میں اقامت دی جائے، اگر بچہ خدانخواستہ  وینٹی لیٹر میں ہو تو باہر ہی سے اذان دے دی جائے۔

حضرت ابو رافعؓ کی روایت ہے، فرماتے ہیں :

"رأیت رسول الله صلی الله علیه وسلم أذّن في اُذن الحسن بن علي حین ولدته فاطمة‘‘.

’’میں نے رسول اللہ ﷺ  کو دیکھا حسن بن علی کی ولادت کے بعد کان میں اذان دیتے ہوئے‘‘۔ 

اذان کے وقت استقبالِ قبلہ کا لحاظ رکھا جائے، البتہ  کانوں میں انگلیاں نہ ڈالی جائیں، بلکہ ہاتھوں کو چھوڑ دیا جائے، اور   "حيّ علی الصّلاة" اور "حيّ علی الفلاح"کے وقت چہرہ دائیں بائیں پھیرا جائے۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ویترسل فیه ویلتفت فیه وکذا فیها مطلقاً یمیناً ویساراً بصلاة وفلاح، ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقًا".

فتاوی شامی میں ہے:

"و في البحر عن السراج: أنه من سنن الأذان، فلایخل المنفرد بشيء منها، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود: ینبغي أن یحول. (قوله مطلقاً) للمنفرد وغیره و المولود وغیره". (الدر المختار مع الشامية ۲؍۴۹ بیروت، ۲؍۵۳ زکریا)

وقال الشیخ عبد القادر الرافعي في تقریراته:

"قال السندي: فیرفع المولود عند الولادة علی یدیه مستقبل القبلة ویؤذن في أذنه الیمنی ویقیم في الیسری، ویلتفت فیهما بالصلاة لجهة الیمین وبالفلاح لجهة الیسار". (تقریرات الرافعي الملحقة بالفتاویٰ الشامیة ۲؍۴۵ زکریا)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے  :

"روي أن عمر بن عبد العزیز کان یؤذن في الیمنی ویقیم في الیسری إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي یعلی الموصلي عن الحسین مرفوعاً: من ولد له ولد فأذّن في أذنه الیمنی وأقام في أذنه الیسری لم تضرّه أم الصبیان. والأظهر أنّ حکمة الأذان في الأذن أنه یطرق سمعه أول وهلة ذکر اللّٰه تعالی علی وجه الدعاء إلی الإیمان والصلاة التي هي أم الأرکان". (مرقاة المفاتیح ۸؍۱۵۹-۱۶۰ أشرفیة)

4.عقیقہ اور اس کا جانور:

عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ’’عقیقہ‘‘ کی برکت سے بچہ کے اُوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں،عقیقہ میں لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کیا جائے، جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَانِ مَکَافِئَتَانِ وَعَنِ الْجارِیَة شَاة‘‘.( صحیح أبي داؤد) 

لڑکے کی جانب سے دو بکریاں، یا بڑے جانور میں دو حصے رکھنا، اور لڑکی پیدا ہو، تو ایک بکراذبح کرنا، یا بڑے جانور میں ایک حصہ رکھنا، مستحب ہے۔

’’ سنن أبي داود ‘‘ میں ہے :

عن ابن عباس :’’ أن رسول اللّٰه ﷺ عقَّ عن الحسن والحسین کبشًا کبشًا‘‘. (۲/۳۹۲، باب العقیقة، ط : دار السلام سهارنفور، رقم : ۲۸۴۱، بذل المجهود: ۹/۶۱۳، ط : دار البشائر الإسلامیة)

5.عقیقہ کا دن :

بہتر یہ کہ بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن عقیقہ کردیا جائے،

ارشادِ نبویؐ ہے:

’’کُلُّ غُلاَمٍ رَهیْنَة بِعَقِیْقَتِه تَذْبَحُ عَنْه یَوْمَ سَابِعه، وَیُسَمَّی فِیْه وَیُحْلَقُ رَاْسه‘‘. (صحیح أبي داؤد)

ترجمہ:  "ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہوتا ہے،  پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق کیا جائے"۔

اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو تو  پھر چودہویں دن، ورنہ اکیسویں دن، اگر اِن دِنوں میں عقیقہ نہ کرسکے، تو عمر بھر میں کسی بھی دن میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے، البتہ بہتر ہے کہ جب بھی عقیقہ کیا جائے، پیدائش سے ساتویں دِن کا لحاظ کیا جائے، یعنی اگر منگل کے دن پیدائش ہے تو پیر کے دن عقیقہ کرلیا جائے۔

’’ إعلاء السنن ‘‘ میں ہے:

"عن بریدة أن النبي ﷺ قال: ’’ العقیقة لسبع أو أربع عشرة أو إحدی وعشرین‘‘. رواه الطبراني في الصغیر والأوسط". (۱۷/۱۳۱، باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة)

فيض البارى شرح صحيح البخارى (5/ 88):

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه".

6.نومولود کے سر  کے بال کاٹنااور چاندی صدقہ کرنا:

عقیقہ کے دن نومولود کے سر کے بال کاٹ دینے کے بعد بالوں کے ہم وزن  چاندی یا اس کے وزن کے بقدر رقم  صدقہ کرنا مسنون ہے۔ اگر نومولود خدانخواستہ وینٹی لیٹر میں ہو تو اس کے بال بعد میں کاٹ لیے جائیں۔

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: فاطمہؓ! اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔ (ترمذی)

"عن علي قال: عقّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلّم عن الحسن بشاة فقال: یا فاطمة! احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره، فکان وزنه درهماً أو بعض درهم". (المصنف لابن أبي شیبة ۱۲؍۳۱۹ بتحقیق الشیخ محمد عوامة، جامع الترمذي: ۱۵۱۹، إعلاء السنن ۱۷؍۱۱۹، جامع الترمذي: ۱؍۲۷۸،مسائل قربانی وعقیقہ۵۳)

7.زعفران لگانا: 

عقیقہ کے دن سر منڈانے کے بعد بچہ کے سر پر زعفران وغیرہ خوش بو  لگانے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن بریدة رضي اللّٰه عنه قال: کنا في الجاهلیة إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاةً ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الإسلام کنّا نذبح الشاة یوم السابع ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران". (رواه أبوداؤد حدیث: ۲۸۴۳، مشکاة المصابیح مع المرقاة ۸؍۸۲)

8.بچہ/بچی کا نام رکھنا: 

بہتر ہے کہ جس دن عقیقہ کیا جائے اسی دن بچہ/بچی  کا اچھا سا نام بھی رکھ دیا جائے۔

کمافي الحدیث:

"تذبح عنه یوم السابع، ویسمی، ویحلق رأسه". ( سنن أبي داؤد، حدیث: ۲۸۳۷، ترمذی شریف ۱۵۲۲ )

9.بچہ کا ختنہ کرنا:

ختنہ اسلام کا شعار اور سنتِ مؤکدہ ہے، اس لیے بچپن ہی میں بچے کی ختنہ کا اہتمام ہونا چاہیے،ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے، اس لیے اس میں بچہ کی صحت اور حالت کو دیکھ کر مناسب وقت تجویز کرنا چاہیے۔

"واختلفوا في الختان، قیل: إنه سنة، هو الصحیح". (عالمگیري ۵؍۲۵۷)

"والأشبه عند الحنفیة: أن العبرة بطاقة الصبي إذ لا تقدیر فیه، فیترك تقدیره إلی الرأي". (الموسوعة الفقهیة ۱۹؍۲۹)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206200204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں