بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی کتابوں میں ایموجیز کا حکم


سوال

کچھ ایموجیز بذریعہ ای میل ارسال کیے ہیں، بتائیے کہ  دی گئی ایموجیز کو بچوں کی درسی کتابوں انگلش، ریاضی، اردو، وغیرہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟کیا یہ  ایموجیزجان دار کی تصویر کے حکم میں آتے ہیں؟ جو چیزیں جان دار نہیں ہیں ،اُن پر ہاتھ ، پیر، ناک، منہ وغیرہ بنانے سے کیا وہ بھی جان دار  کی تصویرکے حکم میں آ جاتے ہیں جیسا کہ اوپر چیزیں دی ہوئی ہیں؟ 

جواب

 بچوں کی کتابوں  میں استعمال ہونے والی ایموجیز میں سے بعض تصاویر  نہ تو جاندار کی ہوتی ہیں اور نہ جاندار کے مشابہ  ہوتی ہیں، جیسے: پھول، فروٹ، بیٹ ،بال، درخت، اور دیگر غیر جاندار اشیاء کی تصاویر وغیرہ، ان تصاویر کا استعمال درست ہے۔اسی طرح جو تصاویر جان دارکے چہرے کے علاوہ دیگر اعضاء (مثلاً:ہاتھ، پاؤں) پر مشتمل ہوں ان کے استعمال کی بھی گنجائش ہے۔

البتہ جو تصاویر جاندار کے چہرے پر مشتمل ہوں  اُن کا استعمال حرام ہے،اسی طرح جو تصاویر  جاندار کے چہرے کے مشابہ ہوں یعنی بعینہ کسی خاص جاندار کی شکل نہ ہو، البتہ  اعضاء کی شکل ناک،کان، آنکھ ہوں لیکن ایسا خلط ملط کر کے بنایا جائے کہ کسی جاندار کے اعضاء دوسرے جاندار میں لگائے جائیں،یا غیر جاندار جسم پر جاندار کے اعضاء کی شکل لگائی جائے تو اگر چہ یہ بعینہ حرمت والی تصویر کے حکم میں نہیں، تاہم جاندار کی تصویر کے مشابہ  ہونے کی وجہ سے ان کا استعمال بھی ممنوع ہے،پھر ان میں بھی جن میں اعضاء کی شکل آنکھ، ناک ، کان ، منہ سارے یا زیادہ تر بنے ہوں، تو یہ بھی  قابل ترک ہے، مذکور ہ بالا تفصیل کی روسے آپ نے سوال کے ساتھ جو ایموجیز ارسال کی ہیں وہ چوں کہ جاندار کے چہرے کے غالب مشابہ ہیں، لہٰذا ان کا استعمال بھی ممنوع ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1 /647، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل اهـ. وهذه الكراهة تحريمية وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء ‌تصوير ‌صور ‌الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه - صلى الله عليه وسلم - «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها، 29/2، ط: دارالكتاب الإسلامي)

وفیہ ایضًا:

"(قوله إلا أن تكون صغيرة) لأن الصغار جدا لا تعبد فليس لها حكم الوثن فلا تكره في البيت ....والمراد بالصغيرة التي لا تبدو للناظر على بعد والكبيرة التي تبدو للناظر على بعد كذا في فتح القدير.....(قوله أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في جنازة فقال أيكم ينطلق إلى المدينة فلا يدع بها وثنا إلا كسره ولا قبرا إلا سواه ولا صورة إلا لطخها»."

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها، 30/2، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں