بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی دینی تربیت کے لیے اسلامی کارٹون بنانے اور کسی ادارے کو کارٹون بناکر دینے کی اجرت لینے کا حکم


سوال

اسلامی کارٹون بنانا کیسا ہے  اور  اس سے حاصل ہونے والی رقم کا حکم کیا ہے؟ تفصیل کچھ اس طرح ہے جیسے آج کل اسلامک کارٹون بنتے ہیں تو بچے زیادہ پسند کرتے ہیں، مثلًا: غلام رسول والے،  عبد الباری والے کارٹون اس میں بچے حرکت کرتے ہیں،  لیکن مقصد بنانے والوں کا بچوں کو تجوید سکھانا ، اخلاقیات سکھانا ہے   تو ایسے میں کیا حکم ہے سب  کے لیے؟ کیوں کہ بچوں کی اصلاح  کے لیے ایسا گیجٹ یوز کیا جا رہا ہے جو بچے پسند کرتے ہیں اور یوں بچوں کی پسندیدہ چیز سے ہی ان کی اصلاح کی کوشش ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلیک اینڈ وائٹ بھی ہو تب کیااس کی اجازت ہے ؟

اس کام کی تفصیل تھوڑی اس طرح ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ پر جا کر آپ اسی طرح کے کارٹون کی مدد سے کوئی پیغام دیتے ہیں،  کارٹون بلیک اینڈ وائٹ بھی ہوتے ہیں ،  چاہیں تو رنگین بھی سلیکٹ کر سکتے ہیں،  چاہیں تو سوفٹ وئیر استعمال کر کے ان کے یونٹوں کو یا بازو اور ٹانگوں وغیرہ کو حرکت بھی دے سکتے ہیں، ۔ویڈیو سے زیادہ اچھا سمجھ آئے گا ،  ہم پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس میں بات یا کام کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتے ہیں،  بعض دفعہ بچوں کی اصلاح کا کوئی کام بھی ہو سکتا ہے، بعض دفعہ کوئی پبلک میسج بھی ہو سکتا ہے ۔

ویسے بہت سارے خواتین و حضرات آج کل کے حالات کی وجہ سے بے روزگار ہو گئے ہیں ، کام کاروبار میں پریشانی ہے تو گھروں میں رہ کے لوگوں کا رجحان اس کام کی طرف ہو گیا ہے ،  گھر بیٹھے اس ہنر کو لیپ ٹاپ کے ذریعے بنا کر کسی بھی کمپنی والوں  کو یا کسی ادارے کو  بیچا جاتا ہے تو بدلے میں ان کو اجرت ملتی ہے ۔ سو اس طرح یہ کام اور کمائی کس  زمرے میں آئے گی؟ کیوں کہ  کوئی بھی یہ کام کرے گا تو دماغ لڑا کر ،محنت کر کے ، نیٹ اور بجلی استعمال کر کے کمپنی اور ان کی ڈیمانڈ کے مطابق ایک چیز بنا کر دے تو حاصل ہونے والی اجرت اس کی اپنی محنت کی مل رہی ہے ۔ اور بعض دفعہ اس کام میں کارٹون حرکت نہیں بھی کرتے اس کے بغیر بھی کام چل جاتا ہے،  لیکن کبھی کبھی مجبوری میں ڈالنے بھی پڑتے ۔ راہنمائی فرما دیجیے!

جواب

شدید ضرورت کے بغیر جان دار کی تصویر بنانا (خواہ ڈیجیٹل ہو) حرام اور کبیرہ  گناہ ہے اور احادیث شریفہ میں جاندار کی تصاویر کے بارے میں بہت سی وعیدات وارد ہوئی ہیں، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جس گھر میں کسی جاندار کی تصویر ہو رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، ایک دوسری روایت میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا،  لہذا  جان دار  کی تصاویر والے  کارٹون  بنانا، دیکھنا، اور  محفوظ رکھنا  جائز نہیں، چاہے یہ کارٹون بلیک اینڈ وائٹ ہوں یا پھر  رنگین ہوں، اور   یہ ناجائز عمل خواہ نیک نیتی  ہی سے کیوں نہ ہو، بہرصورت ناجائز ہے۔

بچوں کی تربیت کرنا اور انہیں اسلامی تعلیمات دینا ماں باپ کا فریضہ ہے اور بچوں کی دینی تربیت کرنا ضروری ہے، لیکن دین سیکھنے اور سکھانے  کے لیے جائز طریقہ کا انتخاب اس سے بھی زیادہ ضروری ہے،رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کا امکان تھا کہ اسلام کے بعض اعمال جیسے ’’نماز‘‘ کی کیفیات انسانی ڈھانچے بناکر، رکوع و سجود اور قیام و قعود کی ہیئات بچوں کو یا عجم کو سکھائی جاتیں، کیوں کہ ہاتھ سے کاغذ وغیرہ پر تصویر بنانے کا فن ہزاروں سال پہلے سے چلا آرہا ہے، اور اس دور میں بھی مصورین موجود تھے، اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں میں نو مسلموں یا بچوں کو تصاویر بناکر تعلیم دی ہو، بلکہ وہ تو جان دار کی تصویر بنانے والوں کو وعیدیں سناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہاں تو رسول اللہ ﷺ کا سکھایا ہوا اسلوبِ تعلیم و تربیت یہ تھا: 

’’صلّوا کما رأیتموني أصلي‘‘

 ترجمہ:اس طرح نماز پڑھو جیساکہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہو۔

 چنانچہ بچوں کی تربیت ایسے طریقہ سے کرناکہ وہ طریقہ خود ہی ناجائز ہو   شرعًا درست نہیں ہے، اچھی تربیت کے لیےبچوں کو نیک لوگوں کے واقعات سنائے جائیں، ان کی مائیں ان کی دینی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں، علماء صلحاء  کی مجالس میں شریک کیا جائے یا انہیں اچھی کتابیں پڑھائی جائیں یا اور کوئی جائز طریقہ اختیار کیا جائے۔ حرام چیز کو لذت یا چاہت سے دیکھنا بھی گناہ ہے، لہٰذا کارٹون بنانے کی طرح کارٹون دیکھنا اور دکھانا بھی باعثِ گناہ ہے خواہ اس میں بظاہر دینی فائدہ ہی کیوں نہ نظر آئے۔نیز اگر مذکورہ کارٹون موسیقی پر  مشتمل ہوں تو یہ مزید خرابی ہے، کیوں کہ موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے۔

لہٰذا جب جاندار کی تصاویر پر مشتمل کارٹون بنانا جائز نہیں ہے تو اس ناجائز فعل کو اپنی معاش کا ذریعہ بنانا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا بھی جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اجرت کے جائز ہونے کا مدار صرف محنت اور عمل پر نہیں ہے، بلکہ جائز کام اور محنت پر ملنے والی اجرت حلا ل ہوتی ہے، جب کہ  ناجائز کام پر  ملنے والی اجرت بھی ناجائز  ہوتی ہے، مثلًا: کوئی میوزک بجاکر کمائے یا کسی کے لیے اجرت پر چوری کرے تو اسے ان ناجائز کاموں کے لیے جسمانی اور دماغی محنت بھی کرنی ہوگی، بلکہ پہلے مشق بھی کرنی ہوگی، لیکن  اس محنت اور کام کی اجرت جائز نہیں  ہوگی۔

 حدیث شریف میں ہے:

’’عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة»‘‘.

(صحيح البخاري: كتاب بدء الخلق، رقم:3226،  ص: 385، ط: دار ابن الجوزي. صحيح مسلم: كتاب اللباس والزينة، رقم:206،  ص: 512، ط: دار ابن الجوزي)

’’عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»‘‘.

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

’’قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى. وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ‘‘.

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

بلوغ القصدوالمرام میں ہے:

’’يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام‘‘.

 (جواہر الفقہ، تصویر کے شرعی احکام: ۷/264-265، از: بلوغ  القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"«وَعَنْ نَافِعٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي طَرِيقٍ، فَسَمِعَ مِزْمَارًا، فَوَضَعَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ وَنَاءَ عَنِ الطَّرِيقِ إِلَى الْجَانِبِ الْآخَرِ، ثُمَّ قَالَ لِي بَعْدَ أَنْ بَعُدَ: يَا نَافِعُ! هَلْ تَسْمَعُ شَيْئًا؟ قُلْتُ: لَا، فَرَفَعَ أُصْبُعَيْهِ مِنْ أُذُنَيْهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ فَسَمِعَ صَوْتَ يَرَاعٍ، فَصَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ. قَالَ نَافِعٌ: فَكُنْتُ إِذْ ذَاكَ صَغِيرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ.

وَفِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ: أَمَّا اسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاهِي كَالضَّرْبِ بِالْقَضِيبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ حَرَامٌ وَمَعْصِيَةٌ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: " «اسْتِمَاعُ الْمَلَاهِي مَعْصِيَةٌ، وَالْجُلُوسُ عَلَيْهَا فِسْقٌ، وَالتَّلَذُّذُ بِهَا مِنَ الْكُفْرِ» " إِنَّمَا قَالَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ التَّشْدِيدِ وَإِنْ سَمِعَ بَغْتَةً فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَيَجِبُ عَلَيْهِ أَنْ يَجْتَهِدَ كُلَّ الْجَهْدِ حَتَّى لَا يَسْمَعَ لِمَا رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْخَلَ أُصْبُعَهُ فِي أُذُنَيْهِ".

 ( بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، ٧ / ٣٠٢٥)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 449):

"(وحرم الانتفاع بها) ولو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي."

ترجمہ: شراب سے نفع اٹھانا حرام ہے، اگرچہ چوپایوں کو پلانے، گارے میں ملانے کے لیے ہو یا محض لذت کے طور پر دیکھنے کے لیے ہو۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"«وقال أبو حنيفة: لاتجوز الإجارة على شيء من اللهو والمزامير والطبل وغيره؛ لأنها معصية والإجارة على المعصية باطلة»." 

(کتاب الاجارات فصل خامس عشر ج نمبر ۷ ص نمبر ۴۸۴،دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں