بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کا ایک بستر پر سونا


سوال

میرے  والدین کی آپس میں جدائی ہوگئی تھی،  پھر والدہ نے کسی اور مرد سے نکاح کرلیا، جس کے تین لڑکے اور ایک لڑکی  پہلے سے ہے،  اب جب بھی میں والدہ سے ملنے جاتا ہوں تو مجھے والدہ اپنے شوہر کی پرانی بیوی کے لڑکے کے ساتھ  رات کو  ایک بستر پر سلادیتی ہیں،  کیا میرا اس بچے کے ساتھ سونا جائز ہے؟ جب کہ میں نے کہیں سنا تھا کہ دو لڑکے ایک ساتھ نہیں سوسکتے۔  واضح رہے کہ اُس بچے کی عمر آٹھ سال ہے جب کہ میں سترہ سال کا ہوں۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

حدیث شریف میں آتا ہے:

مصنف ابن أبي شيبة (1/ 304):
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال نبي الله صلى الله عليه وسلم: «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً، واضربوهم عليها إذا بلغوا عشراً، وفرقوا بينهم في المضاجع»".

یعنی سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی کرو اور ان کے بستر بھی علیحدہ کر دو۔

اس حدیث کی رو سے دس سال کی عمر کے بعد بچوں کو الگ بستر پر سلانے کا حکم ہے؛لہٰذا بصورتِ  مسئولہ بہتر  یہ  ہے کہ آپ الگ بستر پر سوئیں، البتہ اگر الگ بستر کا  انتظام نہ ہوسکے تو ساتھ سونا جائز ہوگا۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 278):

"قال المناوي في فتح القدير: أي: فرقوا بين أولادكم في مضاجعهم التي ينامون فيها إذا بلغوا عشراً، حذروا من غوائل الشهوة وإن كن أخوات. انتهى. قال الطيبي: إنما جمع بين الأمر بالصلاة والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظة لأمر الله تعالى، لأن الصلاة أصل العبادات، وتعليماً لهم المعاشرة بين الخلق، وأن لايقفوا مواقف التهم، فيجتنبوا محارم الله كلها. انتهى". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں