بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے نفقہ اور پرورش کا حکم


سوال

شوہر جو کہ اپنی زوجہ کو طلاق دے چکا ہے کیاعدت طلاق کے دوران وہ اپنی سابقہ منکوحہ کو خرچہ دینے کا پابند ہے؟ تین طلاقیں دے چکا ہے۔

اور کیا یہ شخص متذکرہ بالا اس دوران (عدت طلاق کے دوران) اپنے بیٹے  کو جو کہ 6 سال کا ہے، اس کا خرچہ دینے کا پابند ہے؟ اور کیا یہ خرچہ بالغ ہونے کی عمر تک ہوگا؟ یا چند روزہ ؟ جب کہ شوہر چاہتا ہے کہ بچہ اسی کے پاس رہے یعنی باپ کے  پاس رہے، یہ بھی فرمادیں کہ علیحدگی کے بعد اولاد کہاں  رہے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر مطلقہ بیوی عدت کے ایام شوہر کے گھر میں گزارے یا شوہر کی اجازت سے میکے میں گزارے تو دونوں صورتوں میں عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم ہے اور اگر مطلقہ بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر کسی اور جگہ چلی گئی تو عدت کا خرچہ دینا شوہر پر لازم نہیں۔

نیز  بچے  کی پرورش  سات   سال تک اس کی والدہ کے ذمہ ہے،اور اس دوران بچے کا خرچہ اس كے  والد کےذمہ لازم  ہے۔ 

 بیٹوں کے نفقے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  جب لڑکے کمانے کے قابل ہوجائیں، تو ان کے نفقہ کی ذمہ داری باپ پر نہیں،یعنی  کمانے کے قابل ہوجانے کے بعد باپ پر ان کے نفقہ کی ذمہ داری نہ ہوگی، البتہ اگر وہ خوشی سے یہ ذمہ داری نبھانا چاہے تو نبھا سکتا ہے۔

کمانے کا اہل ہونے کا مطلب  صرف بالغ ہونا نہیں ہے، بلکہ  بالغ ہونے کے ساتھ کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنے پر قادر ہونا بھی ہے، لہٰذا بالغ لڑکا اگر (خدانخواستہ) معذور ہو  اور اس کے پاس مال نہ ہو تو اس کا نفقہ والد کے ذمے  واجب ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثالث في نفقة المعتدة،جلد:1، صفحہ: 557، طبع : دار الفكر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب ‌لا ‌يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الطلاق الباب السابع عشر، الفصل الرابع فی نفقۃ الأولاد، جلد:1، صفحہ:560، طبع: رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر ... (وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقاً وزمن."

(کتاب الطلاق، باب النفقۃ، جلد:3، صفحہ: 612، طبع: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں