مسجد میں بچوں کا کھیلنا اور شورغل کرنا کیسا ہے؟شریعت کا اس میں کیا حکم ہے؟مسجد سے مراد مسجد کا ہال ، برآمدہ ، صحن وغیرہ ہے، بچوں میں پانچ سال کی عمر سے لے کر بارہ، تیرہ سال کے بچے ہوتے ہیں، اور ان میں سات آٹھ سال کی عمر کی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں، اور لڑکوں کے ساتھ بھاگ دوڑ، ہنسی مذاق،اور مختلف قسم کے کھیل کھیلتے ہیں، بعض اوقات ان بچوں کے بڑے بھی مسجد میں بیٹھے ہوتے ہیں، اور بسا اوقات یہ مسجد میں باجماعت نماز کے دوران بھی ہوتا رہتا ہے۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ولی کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کا حکم دے، لہذاسات سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے، لیکن سات سال کی عمر سے کم کے بچے اگر پاکی و ناپاکی کی تمییز رکھتے ہوں اور شوروشغب نہ کرتے ہوں تو انہیں مسجد لانا یا بھیجناجائز ہے، بصورتِ دیگر بلا ضرورت سات سال سے کم عمر کے بچوں کو جب کہ وہ شوروشغب بھی کرتے ہوں ، پاکی و ناپاکی کی تمییز بھی نہ رکھتے ہوں انہیں مسجد میں نہ لایاجائے، تاکہ مسجد کی بےحرمتی نہ ہو، حدیث شریف میں بھی بہت چھوٹے بچوں کو مسجد میں لانے سے منع کیا گیا ہے۔
نماز کے وقت اگر ایک ہی نابالغ بچہ ہو تو اسے بالغوں کی صف میں کھڑا کیا جائےاور اگر ایک سے زیادہ بچے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انہیں بالغوں کی صف کے پیچھے کھڑا کیا جائے، مگر اس زمانے میں نابالغ بچوں کو مردوں کی صفوں میں کھڑا کرنا چاہیے، کیوں کہ دو یا زیادہ بچے ایک جگہ جمع ہوکر نہ صرف اپنی نماز خراب کریں گے، بلکہ دوسروں کی نماز میں بھی خلل ڈالنے کا سبب بن سکتے ہیں، اس لیے ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ بچے کا سرپرست اسے اپنے ساتھ لے کر صف کی ایک جانب کھڑا ہو، بالغ اور باشرع افراد کی موجودگی میں پہلی صف میں امام کے قریب بچے نہ کھڑے ہوں، امام کے قریب وہ افراد کھڑے ہوں جو بوقتِ ضرورت امامت کرسکتے ہوں۔
بچوں کو بڑوں کے برابر ایک ہی صف میں کھڑا کرنے سے نماز کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نماز ہوجاتی ہے، اس لیے کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ بچوں کو ڈانٹ کر ہاتھ سے پکڑ کر پیچھے کی صف میں بھیجیں، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہوسکے گی اور وہ مسجد سے دور ہوسکتے ہیں۔ اگر بچے نماز کے دوران مسجد میں شوروغل کریں تو انہیں نرمی اور محبت کے ساتھ سمجھا دینا چاہیے، سخت لہجہ سے پیش نہیں آنا چاہیے۔بچے کامسجد میں شور مچانا گناہ نہیں ہے، لیکن اس کو روکنے کے لیے کسی عاقل بالغ کا اپنی آوا ز بلند کرلینا یہ آدابِ مسجد کے خلاف اور گناہ کا باعث ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔البتہ بچے کے سرپرست کا بچے کو مسجد میں ساتھ لاکر اسے شور مچاتے اور کھیلتے ہوئے چھوڑدینا، سمجھانے کی کوشش نہ کرنا، یا اتنی کم عمر کے بچے لانا جن سے مسجد کی ناپاکی کا اندیشہ ہو، سرپرست کے حق میں مسجد کی بے ادبی اور گناہ ہے۔
اسی طرح سات آٹھ سال کی بچیوں کو مسجد لانا کسی طرح بھی مناسب نہیں، بچوں کو مسجد لانے کا مقصد چونکہ مسجد اور جماعت کی نماز کی عادت بنانا مقصود ہے، اس لیے اجازت ہے، بچیوں کے حق میں چونکہ یہ عذر و ضرورت نہیں ، اس لیے بچیوں کو مسجد لانا درست نہیں، اس سے اجتناب لازم ہے۔
سنن ابی داؤد میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے:
"عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((مُرُوا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عَشْر، وفرقوا بينهم في المضاجع)). رواه أحمد وأبو داود، وهو الصحيح".
(کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ،133/1،ط:المكتبة العصرية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره.
(قوله: ويحرم إلخ) لما أخرجه المنذري مرفوعًا: «جنّبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم، وبيعكم وشراءكم، ورفع أصواتكم، وسلّ سيوفكم، وإقامة حدودكم، وجمروها في الجمع، واجعلوا على أبوابها المطاهر»، بحر".
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الصلاة،باب ما يفسد الصلاة 1 / 656 ط: سعيد)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله: و يصف الرجال ثم الصبيانثم النساء)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: ليليني منكم أولو الأحلام والنهى...و لم أر صريحًا حكم ما إذا صلى ومعه رجل و صبيّ، و إن كان داخلاً تحت قوله: "و الاثنان خلفه" و ظاهر حديث أنس أنه يسوي بين الرجل و الصبي و يكونان خلفه؛ فإنه قال: فصففت أنا و اليتيم وراءه، و العجوز من ورائنا، و يقتضي أيضًا أن الصبيّ الواحد لايكون منفردًا عن صف الرجال بل يدخل في صفهم، و أن محلّ هذا الترتيب إنما هو عند حضور جمع من الرجال و جمع من الصبيان فحينئذ تؤخر الصبيان".
(البحر الرائق ، كتاب الصلاة، باب الإمامة 3 / 416 ط:دار الفكر)
التحریر المختار میں ہے:
"(قوله: ذكره في البحر بحثًا) قال الرحمتي: ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال، لأنّ المعهود منهم إذا اجتمع صبيّان فأكثر تبطل صلاة بعضهم ببعض و ربما تعدّى ضررهم إلى إفساد صلاة الرجال، انتهى".
(التحرير المختار، كتاب الصلاة، باب الإمامة 1 / 571 ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100732
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن