بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو سکھاتے وقت یوں کہنے کا حکم: اللہ تعالی آسمان میں ہے


سوال

ہمارے ہاں لوگ چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ اللہ آسمان میں ہے،تو پھر جب ان سے پوچھا جاۓ کہ اللہ کہاں ہے؟ تو وہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور پھر ان کے ذہنوں  میں وہ بات پکی ہو جاتی ہے،  تو اس طرح کرنا جائز ہے؟

جواب

بچوں کو سکھاتے وقت یوں کہنا کہ اللہ تعالٰی آسمان میں ہے، اس سے  مراد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ اللہ تعالٰی کا مکان آسمان میں ہے، کیوں کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالٰی مکان اور جہت  سے پاک ہے، اللہ تعالٰی کی ذات اس طرح کسی جہت یا مکان کے ساتھ خاص نہیں ہے  جس طرح کوئی انسان کسی جہت کے ساتھ خاص ہے، بلکہ اس کا مطلب اللہ تعالٰی کی مرتبے کی بلندی کو بتانا یا پھر اللہ تعالٰی  کی خاص صفات کا غلبہ آسمان میں ہونے کو بتاناہوتا ہے، لہٰذا اس معنی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بچوں کو سکھاتے وقت یوں کہنا کہ اللہ تعالٰٰی آسمان میں ہے، درست ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(قال لها) : أي: للجارية (رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (أين الله؟) : وفي رواية: (أين ربك؟) : أي: أين مكان حكمه وأمره وظهور ملكه وقدرته (قالت: في السماء) . قال القاضي: هو على معنى الذي جاء أمره ونهيه من قبل السماء لم يرد به السؤال عن المكان، فإنه منزه عنه كما هو منزه عن الزمان، بل مراده - صلى الله عليه وسلم - من سؤاله إياها أن يعلم أنها موحدة أو مشركة؟ لأن كفار العرب كانوا يعبدون الأصنام، وكان لكل قوم منهم صنم مخصوص يكون فيما بينهم يعبدونه ويعظمونه، ولعل سفهاءهم وجهلتهم كانوا لا يعرفون معبودا غيره، فأراد أن يتعرف منها ما تعبد، فلما قالت: في السماء، وفي رواية: أشارت إلى السماء فهم أنها موحدة يريد بذلك نفي الآلهة الأرضية التي هي الأصنام، لا إثبات السماء مكانا له، تعالى الله عما يقول الظالمون علو كبيرا، ولأنه لما كان مأمورا بأن يكلم الناس على قدر عقولهم ويهديهم إلى الحق على حسب فهمهم، ووجدها تعتقد أن المستحق للعبودية إله يدبر الأمر من السماء إلى الأرض لا الآلهة التي يعبدها المشركون قنع منها بذلك، ولم يكلفها اعتقاد ما هو صرف التوحيد حقيقة التنزيه."

(كتاب النكاح، ج:5، ص:2156، ط:دار الفكر)

 لمعات التنقیح میں ہے:

"ولما كان الإيمان شرطا في الكفارة امتحن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- إيمانها، وسألها: (أين الله؟ ) وفي رواية: أين ربك؟ (فقالت: في السماء)، وليس المراد السؤال عن مكان الرب تعالى، حاشا من ذلك، بل أراد أن يتعرف أنها موحدة أو مشركة، فقنع منها بأن نفت الآلهة الأرضية، وبرأت منها، وعلمت أن لها ربا يدبر الأمر من السماء إلى الأرض، كقوله تعالى: {أأمنتم من في السماء أن يخسف بكم الأرض} [الملك: ١٦]، ولم يطالبها بالتنزيه الصرف والعلم بما يجب الاعتقاد به من صفات الحق تعالى وتقدس، وقد يكتفى بهذا القدر في أمثال ذلك، كذا قالوا، على أن في اشتراط الإيمان في غير كفارة القتل كلاما بين الأئمة، ولعل الحق كان عنده -صلى الله عليه وسلم- عدمه كما هو مذهب الحنفية، ومع ذلك كان الأولى والأفضل ذلك، ويكفي في ذلك هذا القدر من الإيمان فتدبر، والله أعلم."

(كتاب النكاح، ج:6، ص:153، ط:دار النوادر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں