بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو کسی فنکشن کے لیے دیے گئے پیسوں کی شرعی حیثیت


سوال

اگر کسی بچی  یا بچے ( جو کہ بڑا ہو یعنی کالج/ یونی ورسٹی  کا اسٹوڈنٹ ہو)، اس کے کالج/ یونی ورسٹی میں کوئی پارٹی یا فنکشن ہو اور اس کے کالج/ یونی ورسٹی والوں نے اس کےلیے پیسے مانگے ہوں اور وہ بچہ والدین سے اس فنکشن کےلیے پیسے لے گیا ہو، لیکن بعد میں وہ فنکشن کینسل ہو جائے اور کالج/ یونی ورسٹی والے بچے کو وہ پیسے واپس کر دیں، لیکن بچہ اپنے والدین کو آکر کچھ نہ بتائے کہ فنکشن کینسل ہو گیا ہے اور اسی طرح پیسے بھی واپس نہ کرے، یہ سوچ کر کہ میں اپنی کچھ ضرورت کی چیزیں ان پیسوں سے خرید لوں گا،  تو کیا اس بچے کا اس طرح کرنا اور اس طرح پیسے رکھ لینا جائز ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بچے / بچی کو اُس کے والدین نے کالج/ یونی ورسٹی کے فنکشن کے لیے جو پیسے دیے تھے، وہ اُس کے پاس امانت تھے، لہٰذا اُسے وہ پیسے اپنے والدین کو واپس کرنا ضروری ہے۔

اور اگر وہ اُن پیسوں کو  اپنی کسی ضرورت میں استعمال کرنا چاہتا /چاہتی  ہے تو اس کے لیے بھی پہلے  والدین سے اجازت لینا ضروری ہے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة). ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع ... بناء عليه ‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفاء وقبض العين ودفعها من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده وعليه فإذا كان موجودا عينا فيلزم تسليمه عينا إلى موكله ... كذلك إذا تلف ‌المال ‌الذي ‌قبضه ‌الوكيل في يده أو في يد أمينه بلا تعد ولا تقصير أو طرأ على قيمته نقصان فلا يلزم الضمان ... أما إذا تلف بالتعدي أو التقصير فيكون ضامنا. حتى أنه إذا تلف بعد أن امتنع الوكيل عن إعطائه للموكل بطلبه إياه منه يضمن."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، الفصل الأول في بيان أحكام الوكالة العمومية، ٣/ ٥٦١، المادة: ١٤٦٣، ط: دار الجيل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں