بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو بہلانے کے لئے صرف لاالہ سکھانے کا حکم


سوال

ہماری مستورات بچوں کوبہلانے کے واسطے اگر صرف "لا الہ "کہتی ہیں ، تو اس کہنے میں کچھ حرج ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں بچوں کو تعلیم کی غرض سے مکمل کلمہ " لاالہ الا اللہ"  سکھانا چاہیے،  جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہیں:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " افتحوا على صبيانكم أول كلمة بلا إله إلا الله، ولقنوهم عند الموت لا إله إلا الله، فإنه من كان أول كلامه لا إله إلا الله وآخر كلامه لا إله إلا الله، ثم عاش ألف سنة ما سئل عن ذنب واحد".

(شعب الایمان، حسن الخلق،حقوق الاولاد والاہلین ،رقم الحدیث:8282 ، ج:11، ص:128، ط:مکتبۃ الرشد)

ترجمہ: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بچوں کو پہلی بات کلمہ لا إله إلا الله سکھلاؤ اور موت کے وقت ان کو لا إله إلا الله کی تلقین کرو ؛ اس لیے کہ جس کا پہلا کلام لا إله إلا الله ، اور آخری کلام لا إله إلا الله ہو، پھر وہ چاہے ہزار سال جیے تو اس سے کسی ایک گناہ کا سوال نہ ہوگا۔

باقی سوال میں بچوں کو بہلانے کے لئے صرف لاالہ سکھانے سے مطلب اگر صرف انہی الفاظ کی تعلیم  ہے، تو جائز نہیں ہے، الفاظ اگر آسانی کی وجہ سے کلمات کو کاٹ کاٹ کر سکھلایا جائے تو درست ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں