بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو عالمِ دین سے تعلیم دلوانا


سوال

کیا  مولوی صاحب کے علاوہ بھی گھر میں بچوں کو قرآنِ  کریم  کی تعلیم  دی  جا سکتی  ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں قرآن کی تعلیم سے مراد اگر قرآن كریم کا ناظرہ یا حفظ پڑھانا   ہے تو جاننا چاہیے کہ جس کی تجوید درست ہو اور اسےتجوید کے ساتھ  پڑھانا بھی آتا ہو، ایسے شخص سے ہی بچوں کو قرآن کریم  کی تجوید اور قراءت   سکھانی چاہیے؛ تاکہ بچے صحیح قرآن سیکھ سکیں، ہمارے عرف  میں عام طور پر ایسے لوگوں کے لیے    ”مولوی صاحب“  یا  ”قاری صاحب“ وغیرہ جیسے الفاظ کہے جاتے ہیں۔

اور اگر قرآن کی تعلیم سے مراد دین کے احکام ہیں، تو جاننا چاہیے کہ بچوں کو صحیح دین کے اَحکام وہی  سکھا سکتا  ہے  جس نے خود صحیح دین سیکھا ہو اور سمجھا ہو ؛ لہذا بچوں کو دینی اَحکام سکھانے کے لیے مستند  عالمِ دین ہی کا انتخاب کیا جائے، ہر ایک سے دین سیکھنا خطرہ  سے  خالی  نہیں  ہے، خصوصًا جس شخص نے اہلِ حق علماءِ دین اور اللہ والوں کی صحبت نہ اُٹھائی ہو۔

«صحيح مسلم» (1/ 14):

"عن محمد بن سيرين، قال: «إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم."

ترجمہ : ” محمد بن سیرین مشہور تابعی سے منقول ہے  کہ:  یہ علم،  دین ہے ، پس تم دیکھ کہ کس شخص سے  اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔“

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1 / 336):

 "(وعن ابن سيرين) : وهو محمد بن سيرين، مولى أنس بن مالك، وهو من مشاهير التابعين، وهو غير منصرف للعلمية، والمزيدتين على مذهب أبي علي في اعتبار مجرد الزائدتين (قال: إن هذا العلم دين) : اللام للعهد، وهو ما جاء به النبي - صلى الله عليه وسلم - لتعليم الخلق من الكتاب والسنة وهما أصول الدين (فانظروا عمن تأخذون دينكم): المراد الأخذ من العدول والثقات، " وعن " متعلق بتأخذون على تضمين معنى تروون، ودخول الجار على الاستفهام هنا كدخوله في قوله تعالى {على من تنزل الشياطين} [الشعراء: 221] وتقديره أعمن تأخذون، وضمن انظر معنى العلم، والجملة الاستفهامية سدت مسد المفعولين تعليقا كذا حققه الطيبي. رواه مسلم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں