بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے پیدائش کے موقع پر چچا یا خالہ کو ملنے والی رقم کا حکم


سوال

(1)  چھوٹے بچے کے پیسے استعمال کرسکتے ہیں؟ یعنی ایک بچہ پیدا ہوجائے تو لوگ اس کو پیسے دیتے ہیں؟

(2) ہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ بچے کہ پیسے چچا یا خالہ لیتے ہیں، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

(1)  بچوں کو ان کے بچپن میں جو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، ان کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

1: اگر وہ ایسی چیزیں ہیں  جو بچوں کے استعمال کی ہیں  یا  ان کی ضرورت کے موافق ہیں، (مثلاً بچوں کے کپڑے اور جھولا اور کھلونے وغیرہ) تو ایسی چیزیں ان بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی،  کسی کے لیے ان چیزوں میں تصرف  کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔

2: اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور چیزیں ہوں  تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف بچے کی کفالت کرنے والے کو دینا مقصودہوتے ہیں، صرف  ظاہراً   بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طور پر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک وہی لوگ ہوں گے جو بچوں کی کفالت کرتے ہیں، (مثلاً والدین وغیرہ)، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔

3: اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا۔

4: اگر  کسی موقع پر  ہدیہ دینے والے صراحت کردیں  یہ بچے کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے   تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔

(2) بچے کی پیدائش وغیرہ کے موقع پر چچا یا خالہ کو  ملنے والی رقم اگر ان کو بطورِ ملکیت ملتی ہے (جیسے کہ سوال سے ظاہر ہورہا ہے) تو وہ رقم ان کی ملکیت شمار ہوگی، اور وہ اس میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنے کے مجاز ہوں گے، تاہم اگر ان کو بچے کے لیے بطورِ امانت دینے کا عرف ہے، یا بچے کو دینے کی صراحت کرکے دی جائے تو وہ رقم ان کے پاس امانت ہوگی، اس میں انہیں کسی قسم کا تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى -: إن كانت الهدية مما يصلح للصبي مثل ثياب الصبي أو شيء يستعمل للصبيان فهي للصبي، وإن كانت الهدية دراهم أو دنانير أو شيئا من متاع البيت أو الحيوان، فإن أهداه أحد من أقرباء الأب أو من معارفه فهي للوالد إذا اتخذ الرجل عذيرة للختان فأهدى الناس هدايا ووضعوا بين يدي الولد فسواء قال المهدي هذا للولد أو لم يقل، فإن كانت الهدية تصلح للولد، مثل ثياب الصبيان أو شيء يستعمله الصبيان مثل الصولجان والكرة فهو للصبي؛ لأن هذا تمليك للصبي عادة، وإن كانت الهدية لا تصلح للصبي عادة كالدراهم والدنانير ينظر إلى المهدي، فإن كان من أقارب الأب أو معارفه فهي للأب، وإن كان من أقارب الأم أو معارفها فهي للأم؛ لأن التمليك هنا من الأم عرفا وهناك من الأب فكان التعويل على العرف حتى لو وجد سبب أو وجه يستدل به على غير ما قلنا يعتمد على ذلك."

(كتاب الهبة، الباب الثانى فيمايتعلق بالتحليل، ج:4، ص:383، مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205201192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں