بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی جیب خرچی اور ضروریات کے لیے الگ کی ہوئی رقم کو گھر کے کسی اجتماعی کام میں استعمال کرنا


سوال

اگر والد یا والدہ اپنے نابالغ بچوں کے لیے ماہانہ جیب خرچی  یا کپڑوں اور دوسری ضروریات کے لیے کچھ رقم الگ کردیں اور گھر کی کسی ضرورت کے لیے استعمال کرلیں یا ان کو کہہ دیں کہ یہ رقم ہم استعمال کررہے ہیں ، مثال کے طور پر گرمی سے سب  متاثر ہیں ، بچے بھی، والدین  اس رقم سے ائیر کنڈیشن خرید لیں   تو استعمال شدہ رقم کا کیا حکم ہے؟  اور مزید راہ نمائی فرمادیں اس قسم کی صورت حال میں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر والدین  بچوں کی جیب خرچی اور ضروریات کے لیے رقم الگ کرکے رکھیں اور بچوں  کو نہ زبانی طور مالک بنائیں اور نہ ہی ان کے قبضہ میں  دیں،  بلکہ وہ رقم صرف اس نیت سے  رکھی ہو کہ بچوں کو جب ضرورت ہوگی تو اس میں سے خرچ کرلی جائے گی تو اس صورت میں بچے اس رقم کے مالک نہیں بنیں  گے  والدین کے لیے وہ رقم استعمال کرنا جائز ہوگا۔

اگر  والدین نے وہ رقم اپنے نابالغ بچوں کو دے دی ہو یا ان کو بتادیا ہو کہ یہ  آپ کی رقم ہے،  پھر اپنے پاس ہی رکھ لی ہو تو اس صورت میں بچے اس رقم کے مالک ہوجائیں گے، اور والدین کے لیے بچوں کی اپنی ضرورت کے علاوہ  کسی اور کام میں وہ رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا اور نہ کسی اور دینا جائز ہوگا۔

البتہ اگر کبھی والدین کو ضرورت ہو اور وہ رقم گھر  کی کسی اجتماعی ضرورت میں استعمال کرلیں جس میں بچوں کی راحت کا بھی پہلو ہو اور  بچوں کو  ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ترغیب دینا بھی مقصود ہو تو  اس وقت وہ ضرورت پوری کرکے بعد میں دوبارہ وہ رقم بچوں کو دے دیں، یا ان کے لیے رکھ دیں، یا بچوں کی اپنی کسی ذاتی ضرورت کے موقع پر رقم خرچ کرتے ہوئے اس رقم  کے بدلے کی نیت کرلیں  تو اس کی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و يباح لوالديه أن يأكلا من مأكول وهب له، و قيل: لا، انتهى، فأفاد أن غير المأكول لايباح لهما إلا لحاجة وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، و إلا فإن المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال هذا لصبي أو لا، و لو قال: أهديت للأب أو للأم فالقول له، و كذا زفاف البنت، خلاصة. و فيها: اتخذ لولده أو لتلميذه ثيابًا ثم أراد دفعها لغيره ليس له ذلك ما لم يبين وقت الاتخاذ أنها عارية، و في المبتغى: ثياب البدن يملكها بلبسها بخلاف نحو ملحفة و وسادة.

 (قوله: وهب له) قال في التتارخانية روي عن محمد نص أنه يباح. وفي الذخيرة: وأكثر مشايخ بخارى على أنه لا يباح.وفي فتاوى سمرقند: إذا أهدي الفواكه للصغير يحل للأبوين الأكل منها إذا أريد بذلك الأبوان لكن الإهداء للصغير استصغارا للهدية اهـ. قلت: وبه يحصل التوفيق، ويظهر ذلك بالقرائن، وعليه فلا فرق بين المأكول وغيره بل غيره أظهر فتأمل، (قوله: فأفاد) أصله لصاحب البحر وتبعه في المنح (قوله: إلا لحاجة) قال في التتارخانية: وإذا احتاج الأب إلى مال ولده فإن كانا في المصر و احتاج لفقره أكل بغير شيء و إن كانا في المفازة و احتاج إليه لانعدام الطعام معه فله الأكل بالقيمة اهـ."

(5/ 696،  کتاب الھبۃ، ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"و لو اتخذ لولده ثيابًا ثم أراد أن يدفع إلى آخر ليس له ذلك إلا أن يبين وقت الاتخاذ  أنه عارية و كذا لو اتخذ لتلميذه ثيابًا فأراد أن يدفع إلى غيره وإن أرادا الاحتياط يبين أنها عارية حتى يمكنه أن يدفع إلى غيره. اهـ.

وفي هامش منحة الخالق تحته:

(قوله: و لو اتخذ لولده ثيابا إلخ) قال الرملي وفي الحاوي الزاهدي برمز (بم) دفع لولده الصغير قرصا فأكل نصفه ثم أخذه منه ودفعه لآخر يضمنه إذا كان دفعه لولده على وجه التمليك وإذا دفعه على وجه التمليك وإذا دفعه على وجه الإباحة لا يضمن قال عرف به أن مجرد الدفع من الأب إلى الصغير لايكون تمليكًا وأنه حسن. اهـ."

(7/ 288، كتاب الهبة، هبة الأب لطفله، ط: دار الكتاب الإسلامي)

       حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:

"و أما الأب إذا باع عقار الصغير بمثل القيمة فإن كان الأب محمودا عند الناس أو مستورا يجوز حتى لو بلغ الابن لم ينقض البيع وإن كان الأب فاسقا لا يجوز البيع حتى لو بلغ الابن له نقض البيع وهو المختار."

(6/ 212،  کتاب الوصایا، باب الوصی، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں