بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو تحفہ میں ملنے والے سامان کا حکم / بچوں کے کپڑے دوسرے بچوں کو دینا


سوال

جو سامان وغیرہ بچے کو تحفے میں ملے  وہ کس کی ملکیت ہوگا؟ تصرف کا حق کس کو ہوگا؟ اگر سسرال والے کہیں کہ بچے کے کپڑوں میں سے کچھ کپڑے دوسرے بچے کو تحفے میں دینے کے لیے نکال دو تو کیا ماں باپ کے لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟

جواب

بچوں کو ان کے بچپن میں جو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، ان کی مختلف صورتیں ہیں:

1-  اگر وہ ایسی چیزیں ہیں  جو بچوں کے استعمال کی ہیں  یا  ان کی ضرورت کے موافق ہیں تو ایسی چیزیں ان بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی،  والدین کے لیے ان چیزوں میں تصرف  کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔

2- اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور چیزیں ہوں  تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصودہوتے ہیں، صرف  ظاہراً  بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں، جیسا کہ عام طورپر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے، وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔

3۔ اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا۔

4۔ اگر  کسی موقع پر  ہدیہ دینے والے صراحت کردیں  یہ بچے کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے   تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جو کپڑے نا بالغ بچے کو تحفے میں ملے ہیں اور سابقہ تفصیل کی رو سے وہ اس کا مالک ہو تو اس کپڑے کو کوئی دوسرا بچہ (اس کے اپنے بہن بھائی یا کوئی اور بچہ) استعمال نہیں کر سکتا ہے، کیوں کہ یہ کپڑے بچے کی ملکیت ہوں گے اور جو کپڑے بچے کے ملکیتی ہوں تو  والدین کے لیے وہ کپڑے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔

  البتہ اگر وہ کپڑے والدین یا سسرال والوں نے بچوں کو بناکر دیے ہیں  اور والدین یا سسرال والوں   نے ان کو مالک نہیں بنایا، بلکہ  استعمال کے لیے دیے ہیں  تو ایسی صورت میں وہ کپڑے چھوٹے ہونے پر اس کے چھوٹے بہن بھائیوں یا کسی اور بچے کو دیے جاسکتے ہیں،  اور اگر  کسی اور نے  وہ کپڑے بچے  کو تحفے میں دیے ہیں  اور موسم کے ناموافق  ہونے یا کسی اور  وجہ سے بچے کے استعمال میں نہیں آسکے اور  نہ وہ کپڑے بعد میں بچے کے کام آسکتے ہیں تو ایسی صورت میں والدین یہ کپڑے کسی اور کو  دے دیں  اور اس کے عوض بچوں کو ان کے مناسب کوئی کپڑا بنا کردے دیں تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويباح لوالديه أن يأكلا من مأكول وهب له، وقيل: لا، انتهى، فأفاد أن غير المأكول لايباح لهما إلا لحاجة وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، وإلا فإن المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال: هذا لصبي أو لا، ولو قال: أهديت للأب أو للأم فالقول له، وكذا زفاف البنت، خلاصة. وفيها: اتخذ لولده أو لتلميذه ثيابًا ثم أراد دفعها لغيره ليس له ذلك ما لم يبين وقت الاتخاذ أنها عارية، وفي المبتغى: ثياب البدن يملكها بلبسها بخلاف نحو ملحفة ووسادة.

 (قوله: وهب له) قال في التتارخانية: روي عن محمد نص أنه يباح. وفي الذخيرة: وأكثر مشايخ بخارى على أنه لايباح. وفي فتاوى سمرقند: إذا أهدي الفواكه للصغير يحل للأبوين الأكل منها إذا أريد بذلك الأبوان لكن الإهداء للصغير استصغارا للهدية اهـ. قلت: وبه يحصل التوفيق، ويظهر ذلك بالقرائن، وعليه فلا فرق بين المأكول وغيره بل غيره أظهر فتأمل، (قوله: فأفاد) أصله لصاحب البحر وتبعه في المنح (قوله: إلا لحاجة) قال في التتارخانية: وإذا احتاج الأب إلى مال ولده فإن كانا في المصر واحتاج لفقره أكل بغير شيء وإن كانا في المفازة واحتاج إليه لانعدام الطعام معه فله الأكل بالقيمة اهـ".

(5/ 696،  کتاب الھبة، ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"ولو اتخذ لولده ثيابًا، ثم أراد أن يدفع إلى آخر ليس له ذلك إلا أن يبين وقت الاتخاذ  أنه عارية، وكذا لو اتخذ لتلميذه ثيابًا فأراد أن يدفع إلى غيره وإن أرادا الاحتياط يبين أنها عارية حتى يمكنه أن يدفع إلى غيره. اهـ.

وفي هامش منحة الخالق تحته:  (قوله: ولو اتخذ لولده ثيابًا إلخ) قال الرملي: وفي الحاوي الزاهدي برمز (بم) دفع لولده الصغير قرصًا فأكل نصفه ثم أخذه منه ودفعه لآخر يضمنه إذا كان دفعه لولده على وجه التمليك وإذا دفعه على وجه التمليك وإذا دفعه على وجه الإباحة لايضمن، قال: عرف به أن مجرد الدفع من الأب إلى الصغير لايكون تمليكا وأنه حسن. اهـ".

(7/ 288، کتاب الھبة، هبة الأب لطفله، ط: دارالکتاب الإسلامي)

       حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق میں ہے:

"وأما الأب إذا باع عقار الصغير بمثل القيمة فإن كان الأب محمودا عند الناس أو مستورا يجوز حتى لو بلغ الابن لم ينقض البيع وإن كان الأب فاسقا لا يجوز البيع حتى لو بلغ الابن له نقض البيع وهو المختار".

(6/ 212،  کتاب الوصایا، باب الوصی، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111201157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں