بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے ایمان کی خاطر بغیر اجازتِ شوہر مغربی ملک کو چھوڑنا


سوال

  ایک خاتون  عرصہ بیس سال سے کافر ملک  میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ مقیم ہے، ایک چھوٹا بیٹا اور دو بچیاں ہیں جو بالغ ہو گئی ہیں،  سوال یہ تھا کہ یہاں باہر کا ماحول انتہائی خراب اور بے حیائی والا ہے، اور دنیا پرستی اور شخصی آزادی ہے، اگر ہم بچوں پہ سختی کرتے ہیں تو وہ حکومت کا سہارا  لے کر اپنی آزاد زندگی ماں باپ کا گھر چھوڑ کے  گزار سکتے ہیں ، اور یہ تجربہ کئی بار حاصل بھی ہو چکا ہے، اب یہ خاتون چاہتی ہے کے کافر ملک چھوڑ کر واپس اپنے وطن آیا جائے اپنے بچوں اور نسل کے ایمان کی بقا کے لیے، لیکن شوہر باہر کی زندگی اور اس کی سہولیات اور آسائش کی وجہ سے اس پر  راضی نہیں  ،تو کیا   اگر بیوی شوہر کی مرضی کے خلاف  بچوں کے ساتھ پاکستان  میں رہے،  یا شوہر کوپاکستان رہنے پر زبردستی مجبور کرے ،تو  آیا بیوی گناہ گار ہوگی یا نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ ایک مسلمان کےلیے اس کا ایمان بہت قیمتی سرمایہ ہے ،اس کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ،یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام نے بھی اپنی اولاد کو آخری وقت یہی وصیت کی تھی کہ :تمہاری موت اس حال میں ہو کہ تمہارے دل میں ایمان روشن ہو،آپ علیہ السلام کو بھی اللہ تعالی نے یہی حکم قرآن کریم میں دیا کہ "تم اپنے چہرے کو اللہ کے دین کے لیے یکسو ہو کر قائم رکھو،اس سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ایمان کو بچانا دنیا کی ہرآسائش اور آرام سے زیادہ ضروری چیز ہے ،اگر مغربی ملک میں رہنے سے انسان اور اس کی نسل کے ایمان کا خطرہ ہوتو اس ملک  سے نکل جانا ضروری ہے ،وہاں کی آسائش اور راحت کو دیکھتے ہوئے اپنےایمان کو خطرہ میں ڈالنا بے عقلی اور ناسمجھی کی علامت ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ :دنیا کی زندگی دھوکہ ہے ،کامیاب وہ شخص ہے جو جہنم سے بچا کر جنت میں پہنچادیا گیا،نیز یہ بھی واضح رہے کہ اولاد کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کے ایمان کی حفاظت کی جائے ،ایسے اسباب اختیار نہ کیے جائیں جس سے بچوں کے ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اولا اس خاتون کو چاہیے کہ وہ شوہر کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرے،اس کو دعوت کے ذریعے کسی طرح بھی سمجھانے کی اور راہ راست پر لانے کی کوشش کرے،اور  شوہر کو چاہیے کہ وہ خود  وہاں سے اپنی بیوی بچوں کو لے کر نکل جائے تا کہ ان کے ایمان محفوظ رہے ،اگر  کسی مجبوری کے تحت فورا وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو کم از کم بیوی بچوں کو بھیج دے،اور پھر خود بھی کچھ عرصہ میں آجائے ،اگر شوہر  نہ خود وہاں سے جاتاہے اور نہ بیوی بچوں کو جانے کی اجازت دیتا ہے،اور بچے بالغ ہوں تو پھرخاتون  بچوں کو اپنے ساتھ رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے ،جب وہ آمادہ ہوجائیں تو ان کو یہاں پاکستان لے آئیں،اس طرح کرنے سے خاتون گناہ گار نہیں ہوگی۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَ وَصّٰى بِهَا اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (سورة البقرة،132)"

وفیہ ایضا:

"فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا (سورة الروم،30)"

وفیہ ایضا:

"فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَ وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَا اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(سورة ال عمران،185)"

وفیہ ایضا:

"یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(سورة التحريم،6)"

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا ‌طاعة ‌لمخلوق في معصية الخالق."

(کتاب الامارۃ والقضاء،الفصل الثانی،1092/2،ط:المکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101591

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں