میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھیں، اب میری مطلقہ مجھ سے الگ رہتی ہے،میرے اس سے تین بچے ہیں ،دو بیٹیاں ،جن میں سے ایک بیٹی کی عمر ڈھائی سال ہے اور دوسری بیٹی کی عمر سات سال ہے ،اور ایک بیٹا ہے،جس کی عمر بھی ڈھائی سال ہے،بچوں کو اس نے اپنے پاس رکھا ہے،لیکن بچوں کو دو دن کسی دوست کے گھر چھوڑ دیتی ہے، پھر اگلے دو دن کسی اور دوست کے گھر چھوڑ تی ہے،کیوں کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نہیں رہتی،بلکہ الگ گھر میں رہتی ہے، وہ بچوں کی دیکھ بھال نہیں کرتی ،ایک دن بچوں کو کسی دوست کے گھر چھوڑ کر گئی تھی،بچے میرے والد کے گھر آئے اور کہا کہ" دو دن سے امی ہم سے غائب ہیں" تو کیا اس صورت ِحال میں کہ میرے بچے ضائع ہو رہے ہیں ،میں بچوں کو ان کی والدہ سے لے سکتا ہوں یا نہیں ؟ جب کہ بچوں کی نانی اور دادی دونوں زندہ ہیں،نانی ہارٹ پیشنٹ ہیں،میں نے بچوں کے ماموں کو فون کیا کہ میرے بچے ضائع ہو رہے ہیں، ان کی دیکھ بھال کے بارے میں اپنی بہن کو سمجھائیں ، تو انہوں نے کہا کہ یہ بچوں کو ضائع کرتی ہے، آپ بچوں کو اس سے لے سکتے ہو۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً بچوں کی ماں ان کا خیال نہیں رکھتی اور ان کو دوستوں کے گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے تو اسے بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ کیا جائے،اگر وہ بچوں کی صحیح تربیت کرنے اوران کو وقت دینے پر آمادہ ہوجاتی ہے تو ٹھیک اور اگر وہ متوجہ کرنے کے باوجود بچوں کی تربیت نہیں کر رہی یا اس بات کا تجربہ رہا ہے کہ والدہ بچوں كی صحیح تربیت نہیں کرتی تو اس کا پرورش کا حق ساقط ہوجائے گا،اس کے بعد بیٹے کی سات سال کی عمر اور بیٹیوں کی نو سال کی عمر تک ان کی پرورش کا حق نانی کو حاصل ہوگا، بشرطیکہ نانی ان کی دیکھ بھال کرسکتی ہو،ورنہ پرورش کا حق مقررہ عمروں تک دادی کی طرف منتقل ہوجائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(تثبت للأم) النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا. قال المصنف: والذي يظهر العمل بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها. وفي القنية: الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك (أو غير مأمونة) ذكره في المجتبى بأن تخرج كل وقت وتترك الولد ضائعا ...
(قوله: بأن تخرج كل وقت إلخ) المراد كثرة الخروج، لأن المدار على ترك الولد ضائعا والولد في حكم الأمانة عندها، ومضيع الأمانة لا يستأمن، ولا يلزم أن يكون خروجها لمعصية حتى يستغني عنه بما قبله فإنه قد يكون لغيرها؛ كما لو كانت قابلة، أو غاسلة، أو بلانة أو نحو ذلك، ولذا قال في الفتح: إن كانت فاسقة أو تخرج كل وقت إلخ فعطفه على الفاسقة يفيد ما قلنا فافهم۔"
(کتاب الطلاق،باب الحضانة 3/ 555، ط : سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقة أو مغنية أو نائحة فلا حق لها هكذا في النهر الفائق ...وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الحضانة، 1/ 541،ط : رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100040
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن