کیا بچوں کے تین چار سالوں کا خر چہ جو نانا نے اٹھایا ہے،سائل پر واجب الاداہے؟ واضح رہے کہ نانا نے اپنی بیٹی کو( یعنی سائل کی بیوی کو) بچوں کے ساتھ سائل کي اجازت کے بغیر اپنے گھر روک رکھا ہےجس پر سائل قطعاً راضی نہیں ہے۔
صورت مسئولہ میں اگر نانا نے باہمی رضامندی سے یا عدالت کے ذریعے بچوں کا خرچہ طے کیے بغیر اپنے طور پر بچوں کے اخراجات اٹھائے ہیں، تو بچوں کے والد پر اس رقم کو واپس کرنا لازمی نہیں ہے،نیز داماد کی رضامندی کے بغیر اس کے بیو ی بچوں کو زبردستی میکہ میں روک کر رکھنا بھی شرعاً ناجائز اور گنا ہ کا سبب ہے،گھر گرانے کی بجائے بسانے کی کوشش کی جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة...وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد... الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج: 1، صفحہ: 560 و561 و562، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102531
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن