بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کے بڑا ہونے کی وجہ سے اسقاط حمل کا حکم


سوال

 اگر پہلے بچے بڑے ہوں یعنی تقریباً 16 سال کی عمر کے، اور دوبارہ غلطی سے حمل ٹھہر جائے، لیکن پہلے سے بڑے بچے ہونے کی وجہ سے کیا اسقاط حمل جائز ہے؟ اور اسقاط حمل کا کفارہ کیا ہے؟

جواب

صورت  مسئولہ میں  بچوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے اسقاط حمل  کراناشرعا جائز نہیں  ،بلکہ بڑا گناہ ہے ؛اس لیے اللہ پر توکل کرکے  بچے کا اسقاط نہ کروائیں بلکہ شریعت کا حکم سمجھ کر اس ذمہ داری کو اٹھائیں۔

حمل کو ساقط کرنا قتل کی پانچ اقسام میں سے کسی قسم میں داخل نہیں، بلکہ اسقاطِ حمل گناہ کی ایک مستقل قسم ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے کتاب الجنایات میں جنین (رحمِ مادر میں موجود بچہ) کے اَحکام کے بارے میں مستقل باب قائم کیا ہے اور شریعت میں اس کے اَحکام بھی قتل کی دیگر اَقسام کے اَحکام کے علاوہ ہیں، مثلاً اگر کوئی شخص کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس سے بچہ ساقط ہوجائے تو باجماعِ امت مارنے والے پر اس کی دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت (پانچ سو درہم) واجب ہوتی ہے؛ لہذا اگر کسی عورت نے  شوہر کی اجازت کے بغیر اسقاط کیا تو اس کے عاقلہ  پر شرعا دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت واجب ہوگااور اگر اسقاط شوہر کی اجازت سے کیا تو اس صورت میں کچھ لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"و یکره أن تسعی لإسقاط حملها، وجاز لعذر حیث لایتصور".

"(قوله: ویکره الخ) أي مطلقًا قبل التصور و بعد علی ما اختاره في الخانیة کما قد مناه قبیل الا ستبراء، وقال: إلا أنّها لاتأثم إثم القتل. (قوله: وجاز لعذر) کالمرضعة إذا ظهربه الحبل وانقطع لبنها ولیس لأب الصبي ما یستأجر به الظئر وخاف هلاك الولد، قالوا: یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام الحمل مضغة أو علقة ولم یخلق له عضو، وقدروا تلك المدة بمائة وعشرین یوماً، وجاز؛ لأنّه لیس بآدمي، وفیه صیانة الآدمي، خانیة."

(کتاب الحظر والاباحة،ج:۶،ص:۴۲۹،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدةً، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لايجب شيء، كذا في الكافي". 

(کتاب الجنایات،الباب العاشر فی الجنین،ج:۶،ص:۳۵،دارالفکر)

امدادالمفتیین میں ہے :

"صورت ِمسئولہ میں اس عورت کے عاقلہ پر دیت کے پانچ سو درہم واجب ہوں گے اور اگر عاقلہ نہ ہو تو خود عورت کے مال میں واجب ہوں گے ،جن کا ادا کرنا بہر دو صورت  سال  بھر کے اندر اندر ضروری ہوگا اور ہندوستان  میں بالخصوص اس زمانہ میں عاقلہ کا وجود مشکل ہے ؛اس لیے عورت ہی کے مال سے یہ دیت لی جاسکتی ہے"

(کتاب القصاص والدیات،ص:۷۴۹،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں