بچی کی نماز جنازہ پڑھنے کاطریقہ بتا دیں۔
نمازِ جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ جنازہ کو سامنے رکھ کر امام اس کے سینہ کے بالمقابل کھڑا ہو اور باقی لوگ امام کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے ہوں ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی نماز ِ جنازہ پڑھائی اور وسط ( درمیان ) میں کھڑے ہوئے ۔
اور بہتر ہے کہ امام کے پیچھے کم از کم تین صفیں بنا ئی جائیں ۔
صفوں کو درست کر نے کے بعد امام چار تکبیریں کہے اور مقتدی بھی چار تکبیریں کہیں، مگر صرف پہلی تکبیر پر کانوں تک ہاتھ اٹھائیں، جیسا کہ عام نمازوں میں کانوں تک اٹھا تے ہیں اور بعد کی تین تکبیروں میں ہاتھ نہ اٹھائیں ، پہلی تکبیر پر ہاتھ اٹھاکر باندھ لیں، جیسے عام نمازوں میں باندھتے ہیں، پھر ثناء پڑھیں جیسے عام نمازوں میں ثناء پڑھی جاتی ہے، پھر دوسری تکبیر کہہ کر درود شریف پڑھاجائے جیسے کہ عام نماز میں درود ابراہیمی پڑھا جاتا ہے ۔ پھر تیسری تکبیر کہہ کر یہ دعا پڑھیں:
" اَللّٰهمَّ اجْعَلْها لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْها لَنَا أَجْراً وَّ ذُخْراً وَّ اجْعَلْها لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً".
پھر چوتھی تکبیر کہہ کر دونوں طرف سلام پھیردیں ۔
السنن الكبرى للبيهقي (4/ 48):
" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما صلى ثلاثة صفوف من المسلمين على رجل مسلم يستغفرون له إلا أوجب " ... وفي رواية يزيد بن هارون: "إلا غفر له".
ترجمہ:
کسی بھی مسلمان پر تین صفیں مسلمانوں کی نماز ِ جنازہ نہیں پڑھتیں؛ مگر اللہ اس کے لیے (جنت ) واجب کردیتا ہے ۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں : ’’ مگر اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں‘‘۔
صحيح البخاري (2/ 89):
"حدثنا عمران بن ميسرة، حدثنا عبد الوارث، حدثنا حسين، عن ابن بريدة، حدثنا سمرة بن جندب رضي الله عنه، قال: «صليت وراء النبي صلى الله عليه وسلم على امرأة ماتت في نفاسها، فقام عليها وسطها»".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209 ۔۔۔216 ):
"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر. (وسنتها) ثلاثة (التحميد والثناء والدعاء فيها) ذكره الزاهدي، وما فهمه الكمال من أن الدعاء ركن ... (وهي أربع تكبيرات) كل تكبيرة قائمة مقام ركعة (يرفع يديه في الأولى فقط) وقال أئمة بلخ في كلها: (ويثني بعدها) وهو " سبحانك اللهم وبحمدك " (ويصلي على النبي صلى الله عليه وسلم) كما في التشهد (بعد الثانية)؛ لأن تقديمها سنة الدعاء (ويدعو بعد الثالثة) بأمور الآخرة والمأثور أولى، وقدم فيه الإسلام مع أنه الإيمان لأنه منبئ عن الانقياد فكأنه دعاء في حال الحياة بالإيمان والانقياد، وأما في حال الوفاة فالانقياد، وهو العمل غير موجود (ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناوياً الميت مع القوم، ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره، لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم. وفي جواهر الفتاوى: يجهر بواحدة ... (ولايستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم (واجعله ذخراً) بضم الذال المعجمة، ذخيرة (وشافعاً مشفعاً) مقبول الشفاعة. (ويقوم الإمام) ندباً (بحذاء الصدر مطلقاً) للرجل والمرأة لأنه محل الإيمان والشفاعة لأجله".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211201257
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن