بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لڑکی کے لیے ’’کشف‘‘ نام کے نامناسب ہونے پر ایک اشکال کا جواب


سوال

میں نے سوال کیا تھا، کشف نام درست ہے یا نہیں ؟  آپ کی طرف سے فتوی آیا تھا۔ فتوی نمبر اور جواب نیچے  ہے:

’’کشف‘‘ نام کا مطلب اور رکھنے کا حکم

فتوی نمبر 144211200561

کتاب : حظر و اباحت

باب:  نام، لقب، کنیت

فصل:  ناموں کے معانی اور احکام

سوال :

"لڑکیوں کا نام  "کشف"  رکھنا  درست ہے؟

جواب:

’’کشف‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنیٰ کھولنے، ظاہر کرنے اور پردہ ہٹانے کے آتے ہیں، ان معانی کے اعتبار سے لڑکی کے لیے یہ نام مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ لڑکی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی کے نام پر رکھا جائے۔

تاج العروس (24/ 312):

’’الكشف، كالضرب، والكاشفة: الإظهار الأخير من المصادر التي جاءت على فاعلة، كالعافية والكاذبة، قال الله تعالى: ليس لها من دون الله كاشفة أي: كشف وإظهار، وقال ثعلب: الهاء للمبالغة، و قيل: إنما دخلت الهاء ليساجع قوله: أزفت الآزفة. و قال الليث: الكشف: رفع شيء عما يواريه ويغطيه، كالتكشيف قال ابن عباد: هو مبالغة الكشف‘‘.

فقط واللہ اعلم

میں کہتا ہوں کشف نام درست ہے، اور اچھا بھی ہے۔ میری وضاحت نیچے ہے، برائے مہربانی اس وضاحت کے بعد مجھے دوبارہ جواب دیا جائے۔ جواب اور فتوی دینے کا بہت بہت شکریہ۔

کشف : معنی ظاہر کرنا ، کھولنا، پردہ ہٹانا۔ کے معنی منفی نہیں ہوسکتے ، مثبت بھی ہوسکتے ہیں۔ کشف ایک کیفیت ہے جس میں غیبی امور کھلتے ہیں، پردے ہٹتے ہیں، راز  کھلتے ہیں، باطنی انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ اور اکثر بے شمار اولیاءِ  کرام نے کشف  کے  نتیجے میں  کئی راز  کھولے  ہیں، کتابوں میں درج ہیں، سینہ بہ سینہ بھی چلے آرہے ہیں۔ تو اس لحاظ سے معنی درست لگتے ہیں۔

دوسرے، اگر دنیاوی معاملات میں  غلط چیزیں جو چھپی ہوئی ہیں اور مخلوق کو نقصان دیتی ہیں، ان سے پردہ ہٹانا راز کھولنا، ظاہر کرنا ، تاکہ مخلوق  کی اصلاح ہوسکے، اور حفاظت ہوسکے ۔ غلط باتوں کو ظاہر کرنا اور صحیح باتوں کو بھی ظاہر کرنا ۔ ایسے میں معنی  کیوں کر درست نہیں ہیں؟ میرے اپنے ذاتی علم کے مطابق نام درست لگتاہے!

جواب

بصورتِ مسئولہ لڑکی کے لیے "کشف" نام کے نامناسب ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:

1- واضح رہے کہ ’’کشف‘‘ ایک خاص اصطلاح کا نام ہے جس کا حاصل آسان لفظوں میں یہ ہے کہ بعض اوقات انسان پر کچھ ایسے مخفی امور کھل جاتے ہیں جن کا ادراک انسان کے  لیے اپنے حواسِ خمسہ  سے کرنا ممکن نہیں ہوتا، یہ ’’کشف‘‘ اگر شریعت کے مطابق ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، لیکن اگر  یہ ’’کشف‘‘ شریعت کے خلاف ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، اس کا مدار انسان کے اپنے ذاتی احوال پر ہے، بہرحال چوں کہ ’’کشف‘‘ ایک خاص اصطلاحی لفظ ہے جب کہ نام لغوی معنیٰ کے اعتبار سے رکھے جاتے ہیں،  اس  لیے  ’’کشف‘‘ کے اصطلاحی معنی کسی انسان کے نام رکھنے میں ملحوظ نہیں ہوں گے،اور  لغوی معنی کے اعتبار سے لڑکی کے لیے "کشف" نام مناسب نہیں ہے۔

2- "کشف" کے اصطلاحی معنی کے اعتبار سے  نام رکھا جائےتو بھی یہ نام مناسب نہیں ہوگا، کیوں کہ اصطلاحات پر نام نہیں رکھا جاتا، مثلًا: "صلاۃ" کا معنی ہے  دعا، "زکاۃ" کا معنی ہے: پاکی، بڑھوتری، اضافہ، "حج" کا معنی ہے: قصد و ارادہ، اسی طرح دیگر اصطلاحات ہیں، ان کے معانی نہ صرف مثبت ہیں، بلکہ اچھے بھی ہیں، لیکن ان پر نام رکھنا مناسب نہیں ہوگا، کسی انسان کا نام "زکاۃ" رکھنا جس طرح نامناسب ہے، اسی طرح "کشف" کے اصطلاحی معنی کے لحاظ سے  بھی نام رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔

3- اگرچہ لفظ ’’کشف‘‘ میں ایک مثبت معنیٰ کا احتمال بھی ہے، لیکن ’’کشف‘‘ نام رکھنے کی صورت میں مثبت کے ساتھ منفی معنیٰ کا احتمال بھی موجود ہے؛ کیوں کہ عورت کے لیے شریعت نے ہراعتبار سے چھپا ہوا ہونے اور باپردا ہونے کو پسند کیا ہے، حتیٰ کہ نماز میں بھی ایسی کیفیت سے نماز پڑھنے کا حکم ہے جس میں ستر (پردہ) کا اہتمام زیادہ ہو، اس  لیے عورت کے  لیے نام رکھتے ہوئے بھی اس بات کا لحاظ رکھنا  چاہیے کہ اس نام کے معنیٰ میں بے پردگی والا معنیٰ کا احتمال بھی نہ ہو۔

سائل کے طرزِ استدلال کو ملحوظ رکھا جائے تو  "کشف" کے معنی میں ایک اور منفی پہلو بھی نکل سکتاہے، وہ اس طرح کہ جیسے برائی سے پردہ ہٹانے سے مخلوق آگاہ ہوکر بچے گی، اسی طرح بہت سے برائیوں پر پردہ پڑا رہنا ہی اچھا ہوتاہے، بعض برائیوں سے پردہ ہٹانے کا مطلب لوگوں کو برائی کی طرف دعوت دینا ہوتا، اس لحاظ سے "برائی سے پردہ ہٹانا" بعض اعتبار سے مثبت ہوا بعض اعتبار سے منفی ہوا۔

 خلاصہ یہ ہے کہ ’’کشف‘‘ نام میں اگرچہ ایک مثبت معنیٰ کا احتمال بھی ہے ،اسی وجہ سے ہمارے سابقہ فتویٰ نمبر 144211200561 میں ’’کشف‘‘ نام رکھنے کو ناجائز نہیں کہا گیا ہے، لیکن لڑکی کے اعتبار سے ایک نامناسب اور منفی معنیٰ کا احتمال ہونے کی وجہ سے لڑکی کا نام ’’کشف‘‘ نام رکھنے کو نامناسب کہا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں صحابیات رضی اللہ عنہن کے ناموں پر لڑکیوں کا نام رکھنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے، امید ہے کہ اس تفصیل سے آپ کا اشکال حل ہوگیا ہوگا۔

لسان العرب (9/ 300):

’’كشف: الكشف: رفعك الشيء عما يواريه ويغطيه، كشفه يكشفه كشفًا و كشفه فانكشف و تكشف‘‘

"عَنْ عَبْدِاللّٰه بْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله علیه وسلم: إِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلٰی فَخِذِهَا الْاُخْریٰ، فَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذِهَاکَأَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَها، فَإِنَّ اللّٰهَ یَنْظُرُ إِلَیْها وَ یَقُوْلُ: یَامَلَائِکَتِيْ أُشْهِدُکُمْ أَنِّيْ قَدْغَفَرْتُ لَها". (الکامل لابن عدي ج 2ص501، رقم الترجمة 399 ،السنن الکبری للبیهقي ج2 ص223 باب ما یستحب للمرأة الخ،جامع الأحادیث للسیوطي ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)

"المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح؛ لأنه أسترلها". (فتح القدير لابن الہمام: ج1ص246)

"وَ الْمَرْاَةُ تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها اِتِّفَاقًا؛ لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِها عَلَی السَّتْرِ". (فتح باب العنایة: ج1 ص243 سنن الصلاة)

"وَاَمَّا فِي حَقِّ النِّسَاءِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ السُّنَّةَ لَهُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِأَنَّهَا أَسْتَرُ لَهَا". (السعایة ج 2ص156)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144211200867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں