بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ گودلینے کے بعد محرمیت کیسے قائم ہوگی؟


سوال

سوال یہ ہے کہ ہم نے ایک بچہ ا گود لیا ہے ،اب ہم اسے اپنی بیوی کے لیے محرم کیسے کریں ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولے  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتے، اور   لے پالک اور منہ بولے اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔

نیز اس میں  اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر  گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔ البتہ اگر گود لینے والی عورت اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو  وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا  یا  گود لینے والے بچے کو  اس عورت کی  بہن یابھابی دودھ پلادے تو یہ عورت اس کی رضاعی خالہ  اورپھوپھی بن جائے گی، اس صورت میں گود لینے والی سے بچے کے پردے کا حکم نہیں ہوگا۔

تیسرا یہ کہ وراثت کے معاملہ میں بھی گود لینے والے کو باپ کا درجہ نہیں دیا جائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں یا تو  سائل کی بیوی  مذکورہ لے پالک بچے کو  خود مدت ِ رضاعت میں دودھ پلادے ،اور اگر خود دودھ نہیں پلا سکتی تو اس کی بہن یا   بھابھی بچے کو دودھ پلادے ،تو اس صورت میں سائل کی بیوی اس بچے کی رضاعی خالہ اور پھوپھی بن جائے گی ،اور محرمیت ثابت ہو جائے گی ۔

اگر مدتِ رضاعت میں دودھ نہ پلایا گیا  تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کرنا لازم ہو گا، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہو گی ۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ  ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا اٰبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا "[الأحزاب: 4، 5]

ترجمہ:" اور تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (سچ مچ کا) بیٹا نہیں بنادیا یہ صرف تمہارے منہ سے کہنے کی بات ہے اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ بتلاتا ہے ، تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تو وہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں دل سے ارادہ کر کے کرو (تو اس پر مؤاخذہ ہوگا)، اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔" (از بیان القرآن)

التفسیرالمظہری میں ہے:

"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام البنوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."

(سورۃالأحزاب ج: 7 ص: 284 ط :رشيدية)

سنن ابی داؤد میں ہے: 

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من ‌ادعى ‌إلى ‌غير ‌أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة، إلى يوم القيامة"

(باب الرجل ینتمی الی غیر موالیه،ج:4،ص:330،ط:المکتبة العصریة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"كل من تحرم بالقرابة والصهرية تحرم بالرضاع."

(كتاب النكاح،ج:1، ص:277،ط:دارالفكر)

وفيه ايضاً:

"يحرم علي الرضيع أبواه من الرضاع و أصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جمعاً حتي أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أوبعده...إلخ."

(كتاب النكاح،فصل في الرضاعة: ج:1، ص:343،ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144507101699

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں