بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کی شکل باپ سے نہ ملنے اور شک کی بنیاد پر زنا کی تہمت لگانے کا حکم


سوال

میں ماں کا بڑا بیٹا ہوں، میرا کزن ہمارے گھر آتا تھا، مجھے اس کا گھر آنا پسند نہیں تھا ،مگر والدہ آنے دیتی تھی،  میرے بعد ایک بھائی پیدا ہوا ، اس کےبعد دوسرا بھائی پیدا ہوا، لیکن  اس کی شکل بالکل ہم سے نہیں ملتی ہے،  میں میڈیکل سٹور پر  کام کرنے جایا کرتا تھا ، ایک دن جب میں  واپس آیا تو میرے والد اور کزن بہت زور شور سے لڑ رہے تھے،  مجھے اس بات کا علم ہوا کہ کزن چھوٹے بچے کو اپنا بیٹا کہہ کر پکارتا ہے ، اس کے بعد اب میرے دونوں چھوٹے بھائی بھی کزن کو اپنا باپ مانتے ہیں ، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

واضح رہے کہ زنا کا ثبوت شرعی گواہوں پر موقوف  ہے، محض شک کی بنیاد پر کسی کی طرف بدکاری کی نسبت کرنا ناجائز اور بہتان ہے،اسی طرح  بچوں کی صرف شکل نہ ملنا ولد الزنا ہونے کی دلیل نہیں ہے ، لہذاصوتِ مسئولہ میں مذکورہ شکوک کی بنیاد پر سائل کا اپنی ماں کی طرف بدکاری کی نسبت کرنا درست نہیں ہے ، البتہ اگر واقعۃً اس طرح کا معاملہ ہو تو سائل کے والد کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو  سمجھائے ؛تاکہ وہ اس حرکت سے باز آجائے، تاہم مذکورہ  اولاد والد سے  ثابت النسب شمار ہوگی جب تک والد اولاد کا انکار نہ کرے نیز  کزن کاسائل کے گھر میں آنا جانادرست نہیں تھا،اورسائل کا اسے برا ماننا درست تھا، اسی طرح کزن کا بچوں کو اپنی طرف منسوب کرنا اور بچوں کا انہیں باپ ماننا یا پکارنا درست نہیں ہے، اور اگر بچے باشعور ہوں تو ان کا  اس طرح غیر کو اپنا باپ ماننا نا جائز و حرام ہے۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلًا."

ترجمہ:  اور جو عورتیں بیحیائی کا کام کریں تمہاری بیبیوں میں سے سو تم لوگ ان عورتوں پر چار آدمی اپنوں میں سے گواہ کرلو۔ سو اگر وہ گواہی دیدیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کردے یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راہ تجویز فرمادیں۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:15، ترجمہ:بیان القرآن)

قرآنِ مجید میں ہے:

"لَوْلَا جَاۗءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ  ۚ فَاِذْ لَمْ يَاْتُوْا بِالشُّهَدَاۗءِ فَاُولٰۗىِٕكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ."

"ترجمہ:  (آگے اس حسن ظن کے وجوب کی وجہ ارشاد ہے کہ) یہ (قاذف) لوگ اس (اپنے قول) پر چار گواہ کیوں نہ لائے  سو جس صورت میں یہ لوگ (موافق قاعدہ کے) گواہ نہیں لائے تو بس اللہ کے نزدیک یہ جھوٹے ہیں۔"

(سورۃ النور، رقم الآیۃ:13، ترجمہ:بیان القرآن)

صحیح البخاری  میں ہے:

"عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام»."

(باب من ادعی الی غیر ابیہ،ج:8،ص:156،  ط:دارطوق النجاۃ)

صحیح مسلم میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلًا، أَؤُمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»."

(کتاب اللعان، رقم الحدیث:1498، ج:2، ص:1135، ط:داراحیاء التراث العربی)

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم، فإن كان له مخرج فخلوا سبيله، فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة»."

(ابواب الحدود، باب ما جاء في درء الحدود، رقم الحدیث:1424، ج:3، ص:85، ط:دارالغرب الاسلامی)

سنن ابن ماجۃ میں ہے:

"عن ابن عمر أن رجلا من أهل البادية أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله؛ إن امرأتي ولدت على فراشي غلاماأسود، وإنا أهل بيت لم يكن فينا أسود قط، قال: "هل لك من إبل؟ "، قال: نعم، قال: "فما ألوانها؟ "، قال: حمر، قال: "هل فيها أسود؟ "، قال: لا، قال: "فيها أورق؟ "، قال: نعم، قال: "فأنى كان ذلك؟ "، قال: "عسى أن يكون نزعه عرق"، قال: "فلعل ابنك هذا نزعه عرق."

(كتاب النكاح، باب الرجل يشك في ولده،‌‌ ج:11، ص:469، ط:دار المنهاج)

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: قال رسول الله صلی الله علیه و سلّم: إیاکم والدخول علی النساء، فقال رجل: یا رسول الله، أرأیت الحمو؟ قال: الحمو الموت." ( متفق علیہ)."

(كتاب النكاح، باب الرجل يشك في ولده،‌‌الفصل الأول،  ج:2، ص:267، ط:قديمى كتب خانه)

وفيه ايضاً:

"عن عمرعن النبی صلی الله علیه و سلّم قال: لایخلونّ رجل بامرأة إلا کان ثالثھما الشیطان."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات، ‌‌الفصل الثاني، ج:2، ص:269، قديمى كتب خانه)ْ

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"قال أصحابنا: لثبوت النسب ثلاث مراتب (الأولى) النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه ‌يثبت ‌النسب من غير عودة ولا ينتفي بمجرد النفي وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد كذا في المحيط."

(كتاب الطلاق، الباب الخامس عشر في ثبوت النسب، ج:1، ص:536، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويثبت بشهادة أربعة) رجال (في مجلس واحد) فلو جاءوا متفرقين حدوا (ب) لفظ (الزنا لا) مجرد لفظ (الوطء والجماع) وظاهر الدرر أن ما يفيد معنى الزنا يقوم مقامه...(فيسألهم الإمام عنه ما هو) أي عن ذاته وهو الإيلاج عيني (وكيف هو وأين هو ومتى زنى وبمن زنى) لجواز كونه مكرها أو بدار الحرب أو في صباه أو بأمة ابنه، فيستقصي القاضي احتيالا للدرء (فإن بينوه وقالوا رأيناه وطئها في فرجها كالميل في المكحلة) هو زيادة بيان احتيالا للدرء (وعدلوا سرا وعلنا) إذا لم يعلم بحالهم.

قوله ويثبت) أي الزنا عند القاضي، أما ثبوته في نفسه فبإيجاد الإنسان له؛ لأنه فعل حسي نهر (قوله رجال) ؛ لأنه لا مدخل لشهادة النساء في الحدود، وقيد بذلك من إدخال التاء في العدد كما هو الواقع في النصوص (قوله فلو جاءوا متفرقين حدوا) أي حد القذف، ولو جاءوا فرادى وقعدوا مقعد الشهود وقام إلى القاضي واحد بعد واحد قبلت شهادتهم، وإن كانوا خارج المسجد حدوا جميعا بحر عن الظهيرية، وعبر بالمسجد؛ لأنه محل جلوس القاضي يعني أن اجتماعهم يعتبر في مجلس القاضي لا خارجه، فلو اجتمعوا خارجه ودخلوا عليه واحدا بعد واحد فهم متفرقون فيحدون (قوله بلفظ الزنا) متعلق بشهادة، فلو شهد رجلان أنه زنى وآخران أنه أقر بالزنا لم يحد، ولا تحد الشهود أيضا إلا إذا شهد ثلاثة بالزنا والرابع بالإقرار به فتحد الثلاثة ظهيرية؛ لأن شهادة الواحد بالإقرار لا تعتبر فبقي كلام الثلاثة قذفا بحر (قوله لا مجرد لفظ الوطء والجماع) ؛ لأن لفظ الزنا هو الدال على فعل الحرام دونهما، فلو شهدوا أنه وطئها وطئا محرما لا يثبت بحر: أي إلا إذا قال وطئا هو زنا.

والظاهر أنه يكفي صريحه من أي لسان كان كما صرح به في الشرنبلالية في حد القذف، فإنه يشترط فيه صريح الزنا كما هنا تأمل (قوله وظاهر الدرر إلخ) ونصها أي بشهادة ملتبسة بلفظ الزنا؛ لأنه الدال على فعل الحرام أو ما يفيد معناه وسيأتي بيانه. اهـ.

ولا يخفى أنها محتملة أن يكون قوله أو ما يفيد معناه عطفا على الضمير قوله؛ لأنه الدال، يعني أن الدال على فعل الحرام لفظ الزنا أو ما يفيد معناه، وليس ذلك صريحا في أن ما يفيد معناه تصح الشهادة به، نعم ظاهر العبارة عطفه على لفظ الزنا، لكن قوله وسيأتي بيانه أراد به كما قاله بعض المحشين ما ذكره في التعزير من أن حد القذف يجب بصريح الزنا أو بما هو في حكمه بأن يدل عليه اللفظ اقتضاء كقوله في غضب لست لأبيك أو بابن فلان أبيه اهـ وأنت خبير بأن هذا لا يتأتى هنا فهذا يؤيد ما قلنا من العطف على الضمير فافهم."

(کتاب الحدود، ج:4، ص:07، ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں