بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے نام پر فلیٹ لینے سے ملکیت ہوگی یا نہیں؟


سوال

جب میں قریب سات یا نو سال کا تھا، میرےمرحوم والد نے ایک فلیٹ میرے نام پر لیا۔ یہ فلیٹ میرا ہے یا سب وارثین کا حصہ ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے والد نے سائل کے نام پر فلیٹ خریدا جب کہ سائل نابالغ تھا تو  اگر سائل کے نام پر فلیٹ لینے سے والد صاحب کا مقصد سائل کو مالک بنانا تھا تو شرعًا یہ والد کی طرف سے سائل کے لیے  گفٹ تھا اور سائل کی ملکیت  اس فلیٹ  پر اسی وقت ثابت ہوگئی تھی؛ لہذا اب یہ گھر سائل کا ہی ہوگا اور والد کے دیگر ورثاء کا اس میں حق نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم (تتم بالعقد) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه، لأن قبض الولي ينوب عنه.

(قوله: على الطفل) فلو بالغا يشترط قبضه، ولو في عياله تتارخانية (قوله: في الجملة) أي ولو لم يكن له تصرف في ماله (قوله: بالعقد) أي الإيجاب فقط كما يشير إليه الشارح كذا في الهامش، وهذا إذا أعلمه أو أشهد عليه، والإشهاد للتحرز عن الجحود بعد موته والإعلام لازم لأنه بمنزلة القبض بزازية، قال في التتارخانية: فلو أرسل العبد في حاجة أو كان آبقًا في دار الإسلام فوهبه من ابنه صحت فلو لم يرجع العبد حتى مات الأب لايصير ميراثًا عن الأب اهـ.

(قوله: ولو الموهوب إلخ) لعله احتراز عن نحو وهبته شيئا من مالي تأمل، (قوله: معلومًا) قال محمد - رحمه الله -: كل شيء وهبه لابنه الصغير، وأشهد عليه، وذلك الشيء معلوم في نفسه فهو جائز، والقصد أن يعلم ما وهبه له، والإشهاد ليس بشرط لازم لأن الهبة تتم بالإعلام تتارخانية."

(کتاب الہبۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۶۹۴،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں