میں نے اپنے بیٹے کا عقیقہ کرنا ہے،تاریخ پیدائش یکم مارچ 2023 ہے ،دو جانور ایک ساتھ ذبح کرنے کی فرصت نہیں ہے، ایک بکرا ابھی ذبح کروں، دوسرا بکرا ایک دو مہینہ بعد ذبح کر سکتا ہوں؟
واضح رہے کہ، بچے کی پیدائش پر بطورِ شکرانہ جو قربانی کی جاتی ہے اسے ’’عقیقہ‘‘ کہتے ہیں، عقیقہ کرنا مستحب ہے، عقیقہ کا مسنون وقت یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرے، اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو چودھویں (14) دن، ورنہ اکیسویں (21) دن کرے، اس کے بعد عقیقہ کرنا مباح ہے، اگر کرلے تو ادا ہوجاتا ہے، تاہم جب بھی عقیقہ کرے بہتر یہ ہے کہ پیدائش کے دن کے حساب سے ساتویں دن کرے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر دو بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو ایک بکرا ذبح کرنے سے بھی عقیقہ ادا ہوجائے گا، اور اگر ایک بکرا ابھی اور دوسرا مہینے بعد ذبح کریں گے تو یہ بھی درست ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن محمد بن علي بن حسين عن علي بن أبي طالب قال: عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن بشاة، وقال: «يا فاطمة احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضةً»، فوزناه فكان وزنه درهماً أو بعض درهم. رواه الترمذي وقال: هذا حديث حسن غريب وإسناده ليس بمتصل؛ لأن محمد بن علي بن حسين لم يدرك علي بن أبي طالب. (عن الحسن بشاة)، الباء للتعدية أو مزيدة. في شرح السنة: اختلفوا في التسوية بين الغلام والجارية ... وذهب جماعة إلى أنه يذبح عن الغلام بشاتين، وعن الجارية بشاة. قلت: أما نفي العقيقة عن الجارية فغير مستفاد من الأحاديث، وأما الغلام فيحتمل أن يكون أقل الندب في حقه عقيقة واحدة وكماله ثنتان، والحديث يحتمل أنه لبيان الجواز في الاكتفاء بالأقل، أو دلالة على أنه لايلزم من ذبح الشاتين أن يكون في يوم السابع، فيمكن أنه ذبح عنه في يوم الولادة كبشاً وفي السابع كبشاً، وبه يحصل الجمع بين الروايات".
(كتاب الصيد و الذبائح، الحديث، 4154، ج: 7،ص: 747/748، ط: المكتبة التجارية)
اعلاء السنن میں ہے:
’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘.
(باب العقيقة، ج:17، ص:118، ط: ادارة القرآن و العلوم الاسلامية)
فتاویٰ شامی میں ہے
’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.
(كتاب الأضحية،ج:6، ص:336، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408100767
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن