اگر کسی نے عقیقہ کی نیت سے جانور خریدا،لیکن جس کے نام سے عقیقہ کرنا تھا وہ عقیقہ کرنے سے پہلے انتقال کرگیا ، تو اب جانور کا کیا جائے،کیا مرنے کے بعد عقیقہ کرنا پڑے گا جب کہ محل باقی نہیں ہے؟ یاجانور بیچ کر روپیہ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں؟
عقیقہ مستحب ہے ، واجب نہیں ہے، اس لیے عقیقہ کے لیے جانور متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا، اسے بدلنا اور اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرکے عقیقہ کرنا درست ہے، متعین کیے ہوئے جانور کو ذبح کرنا ضروری نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں عقیقہ کے لیے جانور خریدنے کے بعد بچے کا انتقال ہوجائے تو اس جانور کو فروخت کرکے پیسے استعمال میں لیے جاسکتے ہیں، البتہ چوں کہ جس بچے کا عقیقہ سے پہلے انتقال ہوجائے تو اس کی طرف سے عقیقہ کیا جاسکتا ہے، اس لیے مذکورہ جانور اس بچے کی طرف سے بھی عقیقہ میں ذبح کرنا جائز ہے۔
اعلاءالسنن میں ہے:
"قال:ولو مات المولود قبل السابع استحبت العقيقة عندنا. وقال الحسن البصري ومالك: لاتستحب."
(كتاب الذبائح، باب افضلية ذبح الشاة في العقيقة، ط: ادارة القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211200581
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن