ایک شخص مال دار تو ہےمگر بچے کے علاج کے لیے پیسے چاہییں، تو کیا زکات لے سکتا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب تک مذکورہ شخص کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو اس وقت تک اس کے لیے زکات لینا جائز ہے، جس وقت وہ نصاب کے بقدر مالیت کا مالک ہوجائے تواس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ رقم علاج کے لیے خرچ کرلے اور اس کے پاس نصاب سے کم رقم رہ جائے تو پھر اسے زکات دینا جائز ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312):
"واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)، خانية.
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً ... "الخ
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200426
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن