بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے عقیقہ یا بچے کی بسم اللہ پر موصول ہونے والے تحفے تحائف کا حکم


سوال

بچے کے عقیقہ پر یا بچے کی بسم اللہ پر والد نے سارا پیسہ خرچ کیا اور لوگوں کی دعوت کی، اس دعوت کے موقع پر رشتہ داروں اور دوست احباب نے کچھ لفافے دئیے اور کچھ نے سونا وغیرہ تحفے تحائف کے طور پر دیا، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تحفے تحائف بچے کی ملکیت ہوں گے یا والد کی ملکیت  ؟

جواب

واضح رہے عقیقہ یا بسم اللہ وغیرہ کی تقریب میں چھوٹے بچوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے خاص اس بچہ کو دینا مقصود نہیں ہوتا بلکہ ماں باپ کو دینا مقصود ہوتا ہے اس لئے بچہ کی خوشی میں آئی ہوئی تمام چیزیں اور نقد روپیہ بچہ کی ملکیت نہیں بلکہ جو سامان بچہ سے متعلق ہو وہ اس کی ملکیت سمجھا جائے گا، اور جو والد کے استعمال کی ہوں وہ اس کے والد کی، اور جو والدہ کے استعمال کے لائق ہوں وہ والدہ کی سمجھی جائیں گی۔

لہذا صورت مسئولہ میں کوئی شخص خاص بچہ ہی کو کوئی چیز دے جیسا کہ لفافے اور سونا وغیرہ (اور دینے والے کی نیت بچہ کو ہی دینے کی ہے، والدین سے بدلہ لینے کی نہیں ہے) تو پھر جس بچہ کو دیا گیا وہی بچہ اس کا مالک ہے، اگر بچہ سمجھدار ہے تو خود اس کا قبضہ کرلینا کافی ہے، جب قبضہ کرلیا تو مالک ہوگیا، اور اگر بچہ قبضہ نہ کرے یا قبضہ کرنے کے قابل نہ ہو تو اگر والد ہو تو اس کے قبضہ کرلینے سے، اور اگر والد نہ ہو تو دادا کے قبضہ کرلینے سے بچہ مالک ہوجائے گا۔

الفتاوی الخانیة علی ہامش الہندیة:

رجل اتخذ ولیمة للختان فأہدی الناس ہدایا وضعوا بین یدیه، قالوا إن کانت الهدیة ممایصلح للصبیان مثل ثیاب الصبیان أو یکون شیئا یستعمله الصبیان فهی للصبی؛ لأن مثله یکون هبة للصبی عادة،وإن کانت الهدیة دراهم أو دنانیر أوغیر ذلک یرجع إلی المهدی فإن قال المهدی: هی هبة للصغیر کانت للصغیر،وإن تعذر الرجوع إلیه ینظر إن کان المهدی من معارف الأب أوأقاربه فهی للأب وإن کان من قرابة الأم أو من معارفها فہی للأم۔

(کتاب الهبة،فصل فیما یکون هبة من الألفاظ وما لایکون: ۳/ ۲۶۴، ط: رشیدیہ)

الدر المختار مع ردالمحتار:

(وإن وهب له أجنبی یتم بقبض ولیه) وهو أحد أربعة: الأب، ثم وصیه، ثم الجد ثم وصیه، وإن لم یکن فی حجرهم وعند عدمهم تتم بقبض من یعوله کعمه (وأمه وأجنبی)   ولو ملتقطا (لو فی حجرهما) وإلا لا، لفوات الولایة (وبقبضه لو ممیزا) یعقل التحصیل۔

( کتاب الہبة: ۵/ ۴۹۵، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100750

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں