بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا نام رکھنے کا حق کس کو ہے ؟


سوال

حمل کے دوران شوہر اور اس کے گھر والوں نے عورت اور بچے کے حوالے سے اپنے فرائض پورے نہ کئے ہوں ،اپنا سلوک بھی خراب رکھا ہو اور اس کو حمل کے دوران اس کے ماں باپ کے گھر چھوڑ دیا ہو تو بچہ/بچی کا نام رکھنے کا حق سب سے زیادہ کس کا ہے؟

جواب

 بچے کا نام رکھنے کا حق والد کا ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ والدین آپس میں باہمی مشورہ سے کوئی اچھا سا نام رکھ لیں اور اس مسئلہ کو اختلاف کی وجہ نہ بنائیں  ۔باقی حمل کے دوران شوہر کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی بیوی کا خیال رکھتا اور اس کے ساتھ اچھا رویہ رکھ کر بچہ کی پیدائش تک اپنے گھر میں اس کی صحت اور علاج ومعالجہ کا خیال رکھتا؛لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تووہ گناہ گار ہواتاہم  اس وجہ سے والد کا نام رکھنے کا حق ساقط نہیں ہوگا ۔

حدیث میں ہے :

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد ‌فليحسن ‌اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه»".

(مشکاۃ المصابیح،کتاب النکاح،ج:2،ص:939،المکتب الاسلامی)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"‌‌الفصل الخامس في أن التسمية حق للأب لا للأم

هذا مما لا نزاع فيه بين الناس وأن الأبوين إذا تنازعا في تسمية الولد فهي للأب والأحاديث المتقدمة كلها تدل على هذا وهذا كما أنه يدعى لأبيه لا لأمه فيقال فلان ابن فلان قال تعالى {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله} والولد يتبع أمه في الحرية والرق ويتبع أباه في النسب والتسمية تعريف النسب والمنسوب ويتبع في الدين خير أبويه دينا فالتعريف كالتعليم والعقيقة وذلك إلى الأب لا إلى الأم وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم ولد لي الليلة مولود فسميته باسم أبي إبراهيم وتسمية الرجل ابنه كتسمية غلامه".

(الباب الثامن فی ذکر تسمیتہ واحکامہا،‌‌الفصل الخامس فی ان التسمیۃ حق للاب لا للام ،ص:135،دارالبیان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں