بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 ربیع الثانی 1446ھ 15 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے پیشاب کا حکم


سوال

میرا بچہ دو مہینے کا ہے، وہ میرے کپڑے پر پیشاب کر دیتا ہے، تو کیا میں ناپاک ہوگیا؟

جواب

چھوٹے بچے  یا بچی کا پیشاب اسی طرح نجس (ناپاک) ہے جس طرح بڑوں کا پیشاب نجس ہے، اگر کسی جگہ لگ جائے تو اسے پاک کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کے کپڑے یا جسم پر جس جگہ بچہ کا پیشاب لگے گا وہ جگہ ناپاک ہوجائے گی اور اسے پاک کرنا ضروری ہوگا۔ اور اگر ناپاک ہونے سے سائل کی مراد حکمی ناپاکی یعنی وضو یا غسل کا ٹوٹنا ہے تو واضح رہے کہ دوسروں کا پیشاب وغیرہ لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، لہٰذا بچے کا پیشاب لگنے سے وضو یا غسل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

معارف السنن میں ہے:

’’اتفق المذاهب الأربعة علی أن بول الصبي نجس.‘‘ (١ / ٢٦٨) 

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

’’قوله: و بول ما لايؤكل لحمه، شمل بول الحية فإنه مغلظ كخرئها، كما في الحموي على الأشباه، و قالوا: مرارة كل شيء كبوله و بول الخفاش و خرؤه لا يفسد لتعذر الاحتراز عنه، كما في الخانية، قوله: و لو رضيعا، لم يطعم سواء كان ذكرا أو أنثى و فصل الإمام الشافعي رضي الله عنه فقال: يجزىء الرش في بول الذكر ولا بد في بول الأنثى من الغسل.‘‘

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة عنها، ص:١٥٤، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

ملتقى الأبحرمیں ہے:

’’و البول و لو من صغير لم يأكل و كل ما يخرج من بدن الآدمي موجبا للتطهير.‘‘

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ص: ٩٣، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ كل ما يخرج من بدن الإنسان مما يوجب خروجه الوضوء أو الغسل فهو مغلظ كالغائط والبول والمني والمذي والودي والقيح والصديد والقيء إذا ملأ الفم، كذا في البحر الرائق. وكذا دم الحيض والنفاس والاستحاضة، هكذا في السراج الوهاج، وكذلك بول الصغير والصغيرة أكلا أو لا، كذا في الاختيار شرح المختار.‘‘

(كتاب الطهارة، الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ١ / ٤٦، ط: دار الفكر)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144206201317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں