بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا بچے پیدا نہ کرنے کا معاہدہ کرنا


سوال

کسی شخص کی شادی ہوئی تو نکاح کے بعد میاں بیوی کا آپس میں یہ معاہدہ ہوا کہ اولاد پیدا نہیں کر نا ہے اور اس کے بعد بیوی منع حمل کے لیے ٹیبلیٹ اور دوائیاں وغیرہ کھاتی رہی، لیکن دوائیاں کھانے کے باوجو د بھی بیوی کو حاملہ ہو گئی اب شوہر نے کہا کہ اس بچے کو گرادیں؛ کیوں کہ یہ خلاف معاہدہ ہے اور شوہر نے ایک طلاق بھی دے دی ہے اور کہا کہ اگر نہیں گرایا تو دوسری پہلی تاریخ کو دوسری طلاق اور تیسری پہلی کو تیسر اطلاق دے دوں گا ، اور بچے کو پیٹ میں تین ماہ چند دن ہو گئے ہیں اب اس کا گر انا جائز ہے یا نہیں ؟ اور ڈاکٹروں نے کہا کہ بچے کو گرانے کی دوائیاں استعمال کرنے سے ماں کی جان کو بھی مخطر ولاحق ہو سکتی ہے ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب کہ کوئی شرعی عذر نہیں اور نہ بچہ کی پیدائش سے زچہ وبچہ کو کوئی خطرہ ہے،بلکہ  ڈاکٹراس کو ضائع کرنے پر عورت کو لاحق خطرات کی نشان دہی کر رہے ہیں، تو حمل کو گرانا کسی طور جائز نہیں، اگرچہ  اس وقت جان  نہیں پڑی، حمل میں جان پڑ جانے کے بعد  " اسقاط حمل" قتل کے حکم میں ہوگا ،میاں بیوی کے مذکورہ  معاہدہ کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں اور اس معاہدہ کو پورا کرنا ہی جائز نہیں،اس  لیے کہ  یہ معاہدہ مقاصدِ نکاح کے خلاف ہے۔حدیث شریف میں ہے  کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت سے نکاح کی اجازت چاہی جو حسن وجمال اور اعلی حسب ونسب کی حامل تھی، لیکن بچے نہیں جنتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس شخص کے اجازت لینے کے باوجود اسے اس سے نکاح کی اجازت نہ دی، اور تیسری مرتبہ اجازت لینے پر فرمایا: محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو، اس لیے کہ میں روزِ قیامت تمہارے ذریعے دیگر امتوں پر فخر کروں گا۔

نیز جب شوہر نے ایک طلاق دی تو وہ واقع ہوگئی، شوہر کا یہ کہنا کہ دوسرے مہینے کی پہلی کو دوسری اور تیسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو تیسری طلاق دے دوں  گاتو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،  اب اگر شوہر عدت (جو کہ حمل کی وجہ سے بچہ کی پیدائش تک ہے) کے اندر اندر   رجوع کرلے  تو نکاح قائم رہے گا، ورنہ بعد از عدت نکاح ختم ہوجائے گا، پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے  لیے نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قول کے ساتھ تجدیدِ نکاح  کرنا ضروری ہوگا اور رجوع یا تجدیدِ نکاح  دونوں صورتوں میں شوہر کو آئندہ کے لئے صرف دو طلاق کا حق حاصل ہوگا، اگر آئندہ دو  طلاقیں بھی دے دیں تو سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔باقی رجوع کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر دو گواہوں کی موجودگی میں زبان سے یوں کہہ دے کہ " میں نے رجوع کیا" تو اس سے رجوع ہوجائے گا۔

"عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ امْرَأَةً ذَاتَ حَسَبٍ وَجَمَالٍ، وَإِنَّهَا لَا تَلِدُ، أَفَأَتَزَوَّجُهَا، قَالَ: «لَا» ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ فَنَهَاهُ، ثُمَّ أَتَاهُ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: «‌تَزَوَّجُوا ‌الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ»."

( سنن ابي داود، كتاب النكاح، باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء، رقم الحديث: 2050)

 الدر المختار میں ہے:

"(والإذن في العزل) وهو الإنزال خارج الفرج (لمولى الأمة لا لها) لأن الولد حقه، وهو يفيد التقييد بالبالغة وكذا الحرة نهر. (ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية أنه يباح في زماننا لفساده  قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها، وقالوا يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة، فإن ظهر بها حبل حل نفيه إن لم يعد قبل بول."

(الدر المختار،175/3، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں