بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرنا


سوال

ایک خاتون نے اپنے ہونے والے  شوہر سے بچوں کے حوالے سے یہ بات کی تھی کہ شادی کے بعد دو تین سال تک بچے پیدا نہیں کریں گے اور جب ایک بچہ پیدا ہو جائے گا تو اس کے بعد دو تین سال تک دوسرا تیسرا بچہ پیدا نہیں کریں گے ۔ کیونکہ عورت کہتی ہے کہ میرے لئے سنبھالنا مشکل ہے،  تربیت کرنا بھی مشکل ہے، ایسا کہنا  فقر وفاقہ کے  خوف  سے نہیں ہے، تو اس صورت میں بچوں کی پیدائش میں وقفہ کرنا کیا جائز ہوگا؟ اور بچوں کی پیدائش میں وقفے کے لیے عورت کا انجکشن یا میڈیسن کا استعمال کرنا جائز ہوگا؟

جواب

واضح رہےکہ اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت  ہے، جس کے حصول کے لیے  اللہ رب العزت نے نکاح کا حکم فرمایا ہے، اور اسی میں نسلِ انسانی کی بقا بھی ہے،  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثیر الاولاد ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

"ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے (کی صلاحیت رکھنے )  والی ہو ؛ اس لیے کہ میں (روزِ قیامت) تمہاری (کثرت) کی وجہ سے باقی امتوں پر فخر کروں گا۔"

نیز اولاد کی کثرت والدین کے رزق میں برکت کا باعث بھی ہے، اور اچھی تربیت کی صورت میں یہی اولاد ان کے بڑھاپے کا سہارا بھی ہوگی، لہذا  بچوں کو سنبھالنے یا ان کی تربیت کیسے ہوگی؟ محض اس خیال کی  وجہ سے اولاد کے حصول کے ظاہری  أسباب اختیار  نہ کرنے، اور مانع حمل أسباب اختیار کرتے رہنا  غیر مناسب عمل ہے، البتہ اگر واقعةً مذکورہ خاتون کی صحت خراب ہو، جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت کے فقدان کا مسئلہ  پیدا ہونے کا خطرہ ہو، یا خرابی صحت کی وجہ سے نومولود کو سنبھال نہ سکتی ہو،  تو اس صورت میں اولاد میں وقفہ رکھا جا سکتا ہے، تاہم وقفہ کے لیے ماں بننے کی صلاحیت  کو بالکل ختم کر وانا جائز نہ ہوگا، البتہ ظاہری وعارضی  أسباب اختیار  کیے جا سکتے ہیں،  نیز اس صورت میں  مانع حمل دوائیاں یا انجیکشن استعمال کرنا اگرچہ جائز ہوگا، تاہم ایسی دوائیاں و انجیکشن کا  کثرت استعمال نسوانی صحت  کے لیے نقصان ہوتا ہے، لہذا دوائیاں  یا انجیکشن لگوانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

سنن النسائي میں ہے:

٣٢٢٧ - أخبرنا ‌عبد الرحمن بن خالد، قال: حدثنا ‌يزيد بن هارون، قال: أنبأنا ‌المستلم بن سعيد، عن ‌منصور بن زاذان ، عن ‌معاوية بن قرة ، عن ‌معقل بن يسار قال: «جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب ومنصب، إلا أنها لا تلد، أفأتزوجها؟ فنهاه، ثم أتاه الثانية، فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فنهاه، فقال: تزوجوا الولود الودود؛ فإني مكاثر بكم». (كتاب النكاح، كراهية تزويج العقيم، ٦ / ٦٥، ط: كراهية تزويج العقيم)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

٣١٨٤ - وعنه قال: «كنا نعزل والقرآن ينزل» . متفق عليه. وزاد مسلم: «فبلغ ذلك النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم ينهنا» .

قال ابن الهمام: العزل جائز عند عامة العلماء، وكرهه قوم من الصحابة وغيرهم، والصحيح الجواز. قال النووي: العزل هو أن يجامع فإذا قارب الإنزال نزع، وأنزل خارج الفرج، وهو مكروه عندنا لأنه طريق إلى قطع النسل ولهذا ورد " العزل الوأد الخفي " قال أصحابنا: لا يحرم في المملوكة ولا في زوجته الأمة سواء رضيا أم لا؟ لأن عليه ضررا في مملوكته بأن يصيرها أم ولد ولا يجوز بيعها، وفي زوجته الرقيقة بمصير ولده رقيقا تبعا لأمه، أما زوجته الحرة فإن أذنت فيه فلا يحرم وإلا فوجهان أصحهما لا يحرم. ( كتاب النكاح، باب المباشرة، الفصل الأول، ٥ / ٢٠٩٠، ط: دار الفكر)

رد المحتار علي  الدر المختارمیں ہے:

"(ويعزل عن الحرّة) وكذا المكاتبة، نهر بحثا (بإذنها) لكن في الخانية: أنه يباح في زماننا لفساده قال الكمال: فليعتبر عذرا مسقطا لإذنها".

"(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوي: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فيعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها."

( باب نكاح الرقيق: مطلب في حكم العزل ٣/ ١٧٥- ١٧٦، ط: سعيد)

عون المعبود شرح سنن أبي داودمیں ہے:

"لأن نفسه ليس ملكاً له مطلقاً، بل هي لله تعالي فلا يتصرف فيها إلا بما أذن فيه."

(كتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء في الحلف بالبراءة وبملة غير الإسلام، ٩ / ٦١، ط: دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں