بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے نے کتے کو ہاتھ لگا کر ماں کے کپڑوں سے ہاتھ صاف کیا، ماں نے انہیں کپڑوں میں نماز ادا کرلی


سوال

ایک عورت  پارک میں اپنے بچوں کو کھیلا نے  کےلیے لےکر گئی ، پارک میں کچھ لوگ اپنے پالتو کتوں کو بھی لے کر  آۓ  ہوۓ تھے،  اس عورت کے بیٹے نے کتے کو پیار کیا ، اور  ماں کی گود میں آکر بیٹھ گیا،  بچہ  نے ہاتھ  ماں کے کپڑوں پر بھی لگاۓ ، عصر کی نماز کا وقت جارہا  تھا، اس خاتون  نے سوچا  گھر پہنچتے پہنچے عصر قضا  ہو جائے گی اس نے وہیں گھاس پر بغیر جائے نماز بچھاۓ نماز پڑھ لی،  جب کہ وہاں کتے بھی پھر رہے تھے،  کیا  اس عورت کی نماز  ہوگئی یا نماز نہیں ہوئی؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر  مذکورہ خاتون کے بچے  کے ہاتھ میں کتے کا لعاب یا  اس کا پسینہ  نہیں لگاتھا، تو اس صورت میں بچے  کا ہاتھ ناپاک شمار نہیں ہوگا، اور ماں کے کپڑوں سے ہاتھ صاف کرنے کی وجہ سے ماں کے کپڑے بھی ناپاک شمار نہیں ہوں گے اور ان کپڑوں میں ادا کی گئی نماز بھی صحیح ہوجائے گی، البتہ اگر بچہ کے ہاتھ میں کتے کا لعاب یا اس کا پسینہ  لگا ہو، جسے اس نے ماں کے کپڑوں سے صاف کیا ہو، اور تری کا اثر ماں کے کپڑوں پر ظاہر ہوا ہو تو اس صورت میں ماں کے کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے، اور ایسے کپڑوں میں ادا کی گئی نماز بھی صحیح نہیں ہوگا، جس کی قضا  کرنا مذکورہ خاتون پر لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"واعلم أنه (ليس الكلب بنجس العين) عند الإمام، وعليه الفتوى، وإن رجح بعضهم النجاسة، كما بسطه ابن الشحنة، فيباع ويؤجر ويضمن، ويتخذ جلده مصلىً ودلواً، ولو أخرج حياً ولم يصب فمه الماء لايفسد ماء البئر ولا الثوب بانتفاضه ولا بعضه ما لم ير ريقه ولا صلاة حامله ولو كبيراً، وشرط الحلواني شد فمه. ولا خلاف في نجاسة لحمه وطهارة شعره.

 (قوله: ليس الكلب بنجس العين) بل نجاسته بنجاسة لحمه ودمه، ولايظهر حكمها وهو حي ما دامت في معدنها كنجاسة باطن المصلي فهو كغيره من الحيوانات (قوله: وعليه الفتوى) وهو الصحيح والأقرب إلى الصواب، بدائع. وهو ظاهر المتون، بحر. ومقتضى عموم الأدلة، فتح (قوله: فيباع إلخ) هذه الفروع بعضها ذكرت أحكامها في الكتب هكذا وبعضها بالعكس، والتوفيق بالتخريج على القولين، كما بسطه في البحر، وما في الخانية من تقييد البيع بالمعلم فالظاهر أنه على القول الثاني، بدليل أنه ذكر أنه يجوز بيع السنور وسباع الوحش والطير معلماً كان أو لا. تأمل... (قوله: ولا الثوب بانتفاضه) وما في الولوالجية وغيرها: إذا خرج الكلب من الماء وانتفض فأصاب ثوب إنسان أفسده لا لو أصابه ماء المطر؛ لأن المبتل في الأول جلده وهو نجس وفي الثاني شعره وهو طاهر. اهـ فهو على القول بنجاسة عينه كما في البحر ويأتي تمامه قريباً (قوله: ولا بعضه) أي عض الكلب الثوب (قوله: ما لم ير ريقه) فالمعتبر رؤية البلة، وهو المختار، نهر عن الصيرفية، وعلامتها ابتلال يده بأخذه، وقيل: لو عض في الرضا نجسه؛ لأنه يأخذ بشفته الرطبة لا في الغضب؛ لأخذه بأسنانه ... (قوله: ولا خلاف في نجاسة لحمه) ولذا اتفقوا على نجاسة سؤره المتولد من لحمه؛ فمعنى القول بطهارة عينه طهارة ذاته مادام حيا، وطهارة جلده بالدباغ والذكاة، وطهارة ما لاتحله الحياة من أجزائه كغيره من السباع".

( كتاب الطهارة،  باب المياه، ١ / ٢٠٨، ط: دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" الكلب إذا أخذ عضو إنسان أو ثوبه لا يتنجس ما لم يظهر فيه أثر البلل راضياً كان أو غضبان۔ كذا في منية المصلي۔ قال في الصيرفية: هو المختار۔ كذا في شرحها لإبراهيم الحلبي."

( كتاب الطهارة، الباب السابع في النجاسة وأحكامها، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ١ / ٤٨، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں