زید نے جب دوسری شادی کی، اس وقت پہلی بیوی سے اس کی ایک بیٹی تھی، جسے ماں اپنے ساتھ لے گئی تھی، زید نے بڑی کوشش کی لیکن بچی اس کو نہیں دی گئی، پھر جب بچی بالغ ہوگئی، تو زید لینے کے لیے گیا، تو اس نے صاف انکار کردیا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی، اس کے بعد مذکورہ بیٹی کی شادی ہوگئی، اور کافی عرصہ تقریباٍ 35،30سال گزر گئے،اس کے بعد اس نے اپنے والد سے رابطہ کیا کہ مجھے طلاق ہوگئی ہے، اور میں بے سہارا ہوں، مجھے آپ کا سہارا درکار ہے،تو زید (یعنی اس کا والد) اپنی بیٹی کو اس کے بچوں سمیت اپنے گھر لے آیا، لیکن کچھ وقت ہی گزارا تھا کہ وہ کہنے لگی کہ میں ادھر نہیں رہ سکتی، مجھے اپنا حصہ چاہیئے، جو آپ نے باقی اولاد پر خرچہ کیا ہے، ان کی تعلیم اور ان کی شادی وغیرہ پر اخراجات کیے ہیں، تو والد نے دو لاکھ روپے دیے اور کہا کہ ابھی جائیداد تو تقسیم نہیں ہوئی، اور اگر تم میرے پاس رہتیں تو تم پر بھی خرچہ کرتا، لیکن اس نے پیسے نہیں لیے، اور والد کے گھر سے خود چلی گئی،تو اس صورت میں کون گناہ گار ہے؟ اور جائیداد میں اس کا حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟ اور جو باقی اولاد پر خرچ کیا ہے، مثلاً کھانا، تعلیم اور شادی وغیرہ میں یہ سب کچھ اس کو دینا پڑے گا، یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں زید کی مذکورہ بیٹی کا اپنے والد سے گزشتہ دنوں کے کھانے پینے، تعلیم اور شادی کے اخراجات کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، نیز باپ نے اپنے پاس رہنے والی اولاد کے کھانے،پینے، تعلیم دلانے اور شادی وغیرہ پرجو اخراجات کیے، اور مذکورہ بیٹی باپ کی خواہش اور مطالبہ کے باوجودساتھ رہنے تیار نہ ہوئی اور اپنی ماں کے پاس رہنے کو ترحیج دی، اور طلاق ہونے کے بعد والد نے اسے سہارا دیا، گھر بلایا اور بیٹی کے مطالبہ پر دو لاکھ روپے دینے کی کوشش کی جسےاس نے ٹھکرا دیا، اور والد کے گھر سے چلی گئی، تو اس صورت حال میں اس نے خود اپنے آپ کو پدری شفقت اور اپنی حقوق سے محروم رکھا، تو اس کا گناہ باپ پر نہیں ہوگا۔
نیز اولاد میں سے کسی کو اپنے والد سے اس کی زندگی میں والد کی جائیداد میں سے حصہ کے مطالبہ کا شرعاً حق نہیں ہوتا، لہٰذا زید کی مذکورہ بیٹی کا جائیداد سے حصہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہوگا، البتہ زید کی وفات کے وقت اگر مذکورہ بیٹی زندہ ہو، تو وہ زید کی دیگر اولاد کے ساتھ زید کی وراثت کی شرعاً حق دار ہوگی۔
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا) ؛ لأن النفقة صلة وليست بعوض عندنا فلم يستحكم الوجوب فيها إلا بالقضاء كالهبة لا توجب الملك فيها إلا بمؤكد وهو القبض والصلح بمنزلة القضاء؛ لأن ولايته على نفسه أقوى من ولاية القاضي بخلاف المهر؛ لأنه عوض البضع والمراد بعدم وجوبها عدم كونها دينا عليه فلا تكون دينا عليه يطالب به ويحبس عليه إلا بإحدى هذين الشيئين فحينئذ تصير دينا عليه فتأخذه منه جبرا سواء كان غائبا أو حاضرا سواء أكلت من مال نفسها أو استدانت وأطلق المصنف فشمل المدة القليلة لكن ذكر في الغاية أن نفقة ما دون الشهر لا تسقط وعزاه إلى الذخيرة فكأنه جعل القليل مما لا يمكن التحرز عنه إذ لو سقطت بمضي اليسير من المدة لما تمكنت من الأخذ أصلا اهـ. والمراد بالرضا اصطلاحهما على قدر معين للنفقة إما أصنافا أو دراهم؛ ولذا عبر الحدادي بالفرض والتقدير فإذا فرض لها الزوج شيئا معينا كل يوم، ثم مضت مدة فإنها لا تسقط فهذا هو المراد بقولهم أو الرضا، وأما ما توهمه بعض حنفية العصر من أن المراد بالرضا أنه إذا مضت مدة بغير فرض ولا رضا، ثم رضي الزوج بشيء فإنه يلزمه فخطأ ظاهر لا يفهمه من له أدنى تأمل."
(کتاب الطلاق،باب النفقة،203/4،دار الكتاب الإسلامي)
العقود الدریہ میں ہے:
"وحقا لأن الورثة لا يملكون التركة قبل موت المورث حقيقة وحقا بدليل أن المورث يملك التصرف فيه بيعا ووطئا واستمتاعا واستخداما واستغلالا۔"
(كتاب الوصايا،286/2،دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101023
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن