بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ گود لینا اور اسے اپنی ولدیت دینا


سوال

میں نے  دو  شادیاں  کی ہیں،  اور اولاد  سے محروم ہوں، شادی  کی  مدت  20  سال  ہے،  میری بہن  امید  سے  ہے اور  وہ  اپنا بچہ  مجھے دینا چاہتی ہے،  میں چاہتا ہوں کہ  اس بچے کو اپنا نام دوں،  اس حوالے سے قرآن اور حدیث  کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ آیا میرے  لیے ایسا کرنا جائز ہوگا؟

جواب

بھائی  اپنی سگی بہن کا بچہ گود لے سکتا ہے، البتہ اس بچہ کو اپنا نام شرعاً  نہیں دے سکتا، پس  بچے  کی نسبت و ولدیت اصل والدین کی طرف کرنا ضروری ہوگا، اس  لیے کہ  احکم الحاکمین  کا فرمان ہے کہ ان کو ان کے اصل والد کے نام کے ساتھ ہی پکارا جائے، یعنی والدیت میں   رد  و بدل نہ کیا جائے، اور  اگر ان کے والد کا علم نہ ہو  ( تب بھی ان کی ولدیت  تبدیل  نہ  کی  جائے )  اور  ان کو اپنا بھائی یا دوست قرار دیا جائے، جیساکہ سورۂ احزاب  میں ہے:

﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: ٥)

نیز ولدیت کی تبدیلی پر احادیث میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، جیسا کہ  ریاض الصالحین  میں ہے:

"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه: 

1/1802- عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّ صلي الله عليه وسلم قالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔

"2/1803- وعن أبي هُريْرَة عَن النَّبيِّ صلي الله عليه وسلم قَالَ: لاَ تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أبيهِ فَهُوَ كُفْرٌ. متفقٌ عليه".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اپنے والد سے بے رغبتی و اعراض مت کرو ؛ اس لیے کہ جو شخص اپنے والد سے اعراض (اپنے آپ کو کسی اور کی طرف منسوب) کرے گا تو یہ کفر ہے۔

"3/1804- وَعَنْ يزيدَ شريكِ بن طارقٍ قالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا عَلى المِنْبَرِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتهُ يَقُولُ: ... وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبيهِ، أَوْ انتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَاليهِ، فَعلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّه وَالملائِكَةِ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ، لا يقْبَلُ اللَّه مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامةِ صَرْفًا وَلا عَدْلًا. متفقٌ عليه".

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں : جو شخص اپنے والد کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا والد قرار دے گا یا غیر کی طرف منسوب کرے گا تو اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، روز قیامت اللہ اس کی مالی عبادات قبول نہیں کرے گا۔

"4/1805- وَعَنْ أَبي ذَرٍّ أنَّهُ سَمِعَ رسولَ اللَّه صلي الله عليه وسلم  يَقُولُ: لَيْسَ منْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْر أبيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إلاَّ كَفَرَ، وَمَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَليَتَبوَّأُ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّار، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أوْ قالَ: عدُوَّ اللَّه، وَلَيْسَ كَذلكَ إلاَّ حَارَ عَلَيْهِ متفقٌ عليهِ. وَهَذَا لفْظُ روايةِ مُسْلِمِ".

ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جانتے  ہوئے کسی اور کے بارے میں والد ہونے کا دعوی کسی نے کیا تو اس نے کفر کیا ۔۔۔الحدیث

لہذا صورتِ  مسئولہ میں آپ اپنی بہن یا کسی اور  کی اولاد  میں سے کسی کو  گود تو لے سکتے ہیں، تاہم اسے اپنی ولدیت نہیں دے سکتے، اسی طرح وہ بچہ یا بچی آپ کا وارث نہیں بنے گا۔

نیز اگر آپ کی بہن کا بیٹا پیدا ہوتاہے اور آپ اسے گود لیتے ہیں تو وہ آپ کی دونوں بیویوں کے لیے غیر محرم ہوگا اور بلوغت کے بعد ،ایسی صورت میں اگر آپ کی بیوی کی بہن یا ان کی بھابھی بچے کو دو سال کی عمر کے اندر اندر دودھ پلادیں تو وہ بچہ ان کے لیے رضاعی اعتبار سے محرم بن جائے گا، اور بلوغت کے بعد پردے کا حکم نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں