گھر سے تین سال کے بچے کو چھوڑ کر آشنا کے ساتھ فرار ہونے والی عورت کی کیا سزا ہے؟
شادی شدہ عورت کا اجنبی مرد کے ساتھ فرار ہونا بہت ہی بڑا گناہ ہے، بلکہ کئی گناہوں (مثلاً: غیر محرم سے ناجائز بات چیت، خلوت، خدانخواستہ ناجائز جسمانی تعلق وغیرہ) کا مجموعہ ہے، اسے نصیحت کی جائے، اور وہ سچے دل سے تائب ہوجائے، اگر وہ خود لوٹ آتی ہے یا اسے تلاش کرکے واپس لے آیا جائے تو خاندان کے بزرگ اور سمجھ دار لوگوں کو اس معاملے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔
شریعتِ مطہرہ میں بعض گناہوں کی سزائیں تو مقرر کی گئی ہیں، مثلاً چور کی سزا یہ کہ اس کا ہاتھ کاٹا جائے، شادی شدہ زانی کی سزا یہ کہ اس کو سنگسار کیا جائے، لیکن بہت سے گناہ ایسے ہیں جس کی مقررہ سزا شریعت میں بیان نہیں کی گئی، بلکہ اس کا معاملہ وقت کے حاکم کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ وہ معاملہ کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو سزا تجویز کرے وہی اس کی سزا ہو گی۔
اب اگر کوئی عورت تین سال کے بچے کو گھر میں چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ فرار ہو جائے اس کی کوئی سزا شرعاً متعین نہیں ہے، اگر یہ معاملہ عدالت یا پنچائیت میں پیش کیا جاتا ہے تو جو سزا اس کے لیے تجویز کی جائے گی وہی اس کی سزا ہو گی۔ البتہ مالی جرمانہ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ہاں اگر وہ سچے دل سے تائب ہوکر پاکیزہ زندگی شوہر کی اطاعت میں گزارنا چاہتی ہے تو شوہر اسے گھر میں رکھ سکتاہے، اور اگر وہ باز نہیں آئی تو ایسی عورت کو طلاق دینے میں شوہر حق بجانب ہوگا، نیز ایسی صورت میں جرگے کے ذریعے شوہر مہر کے بدلے طلاق کا مطالبہ بھی رکھ سکتاہے، اس مطالبے میں شوہر قابلِ ملامت نہیں ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 60):
"باب التعزير (هو) ... (تأديب دون الحد أكثره تسعة وثلاثون سوطًا، وأقله ثلاثة) ...
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 62):
"(و) التعزير (ليس فيه تقدير بل هو مفوض إلى رأي القاضي) وعليه مشايخنا، زيلعي؛ لأن المقصود منه الزجر، وأحوال الناس فيه مختلفة، بحر."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109203205
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن