بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مانع حمل کے طور پر رِنگ ڈلوانا اور کنڈم استعمال کرنا


سوال

میرے تین بچے ہیں اور شادی کو چار سال ہوئے ہیں، میری اہلیہ پھر سے چوتھے بچے سے امید سے ہے، ڈاکٹر سے برتھ کنٹرول کے لیے مشورہ کرنے پر انہوں نے کچھ عارضی حل بتائے تھے، جن میں سے ایک رِنگ ڈلوانے کا طریقہ ہے، تو کیا یہ طریقہ اختیار کرنے سے گناہ ہو گا یا نہیں؟ یہ بھی بتا دیجیے کہ کیا پروٹیکشن (کنڈم) کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟

رِنگ عورت میں ڈالی جاتی ہے اور جب چاہیں تو نکالی بھی جا سکتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ کثرتِ اولاد ترغیباتِ  شریعت میں سے ہونے کے ساتھ ساتھ نکاح کے من جملہ مقاصد میں سے ایک اہم مقصد بھی ہے ؛ اس لیے بلاضرورت کوئی بھی ایسا ذریعہ استعمال کرنا جو مانعِ حمل ہو، ناپسندیدہ عمل ہے، تاہم اگر عورت کمزور ہو اور اس کی صحت حمل کی متحمل نہ ہو تو عارضی طور پر مانعِ حمل تدبیر  اختیار کرنے کی گنجائش ہے، یعنی ہر ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے، چنانچہ  ضرورت کے وقت کنڈم استعمال کرنے کی گنجائش ہو گی۔

باقی آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے، یا کسی اجنبی کے سامنے ستر کھولنا پڑے،  شرعاً اس کی اجازت نہیں ہو گی۔ 

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة. (قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".

(کتاب النکاح، مطلب فی حکم العزل(3/ 175) ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں