بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا نام محمد حنظلہ رکھنے کا حکم


سوال

جو فضائل"محمد" نام رکھنے کے بارے میں ہیں، اگر میں بچے کا نام "محمد حنظلہ" یا اسی طرح اور کوئی نام رکھ لوں تو پھر بھی یہ ایسے ہی رہیں گے یا یہ صرف اور صرف"محمد" اکیلے رکھنے پر ہیں؟ 

جواب

بچے کا نام محمد رکھنے سے متعلق اکثر روایات سنداً کمزور ہیں، بعض موضوع ہیں، البتہ برکت کے لیے محمد نام رکھنا جائز بلکہ مستحسن ہے،  حضور ﷺ نے محمد نام رکھنے کی خود اجازت عطا فرمائی ہے۔ جیساکہ حدیث پاک میں ہے:

"سمّوا بإسمي، ولا تكنوا بكنيتي".(صحیح مسلم،(3/1682) کتاب الاداب، ط: دار احیاء التراث العربی)

یعنی میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔ 

بلکہ  آپ ﷺ نے خود بھی کئی بچوں کا نام ”محمد“  رکھا ہے، یعنی رسول اللہﷺ کی خدمت میں جب  نومولود بچے لائے جاتے تھے  تو آپﷺ  تحنیک (گھٹی) کے بعد ان کا نام بھی تجویز فرماتے، چناں چہ ان میں سے کئی بچوں کانام آپ ﷺنے ”محمد“ رکھا۔ 

اب صرف محمد نام رکھا جائے یا کسی نام کے ساتھ ملا کر رکھا جائے، دونوں صورتوں میں تبرک حاصل ہوجاتا ہے۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

"وحديث: "من ولد له مولود فسماه محمدًا تبركًا كان هو و والده في الجنة"، وحديث: "ما من مسلم دنا من زوجته وهو ينوي إن حبلت منه أن يسميه محمدًا إلا رزقه الله ولدًا ذكرًا"، وفي ذلك جزء كله كذب". (الاسرار المرفوعة :۱/۴۳۵،ط:مؤسسة الرسالة بیروت)

اللؤلؤ المرصوع میں ہے :

حَدِيث: "من ولد لَهُ مَوْلُود فَسَماهُ مُحَمَّدًا تبركًا كَانَ هُوَ وَولده فِي الْجنَّة مَوْضُوع". (۱/۳۰۲،ط:دارالبشائر الاسلامیة ) فقط والله أعلم 

 

 

 


فتوی نمبر : 144109201540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں