بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کا نام ’’سبحان‘‘ یا ’’عبد السبحان‘‘ رکھنے کا حکم


سوال

مجھے عبد السبحان نام بہت پسند ہے ،ارادہ ہے کہ بچہ کا رکھوں،  مگر ڈر ہے کہ لوگ صرف "سبحان"  پکاریں گے،  کیا صرف سبحان پکارنا جائز ہے؟

جواب

"سُبحان" کا معنی ہے پاکی بیان کرنا، یعنی کسی کو تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا؛ چوں کہ تمام عیوب اور نقائص سے پاک ٹھہرانا یا بتانا صرف اللہ تعالیٰ ہی کے شان کے لائق ہے؛ لہٰذا ’’سبحان‘‘ نام رکھنا یا کسی کو ’’سبحان‘‘ نام سے پکارنا جائز نہیں ہے، اگر یہ نام رکھنا ہو تو اس نام کے ساتھ "عبد" کا اضافہ کرکے "عبد السبحان" نام رکھا جائے اور ’’عبد السبحان‘‘ نام سے ہی پکارا جائے۔

اگر آپ  ’’عبدالسبحان‘‘ نام رکھیں اور لوگ اسے صرف ’’سبحان‘‘ پکاریں تو آپ گناہ گار نہیں ہوں گے،  جیساکہ بعض لوگ "عبدالرحمٰن"  یا "عبد الرزاق" یا "عبدالغفار" کو "رحمٰن" ، "رزاق" اور "غفار"  کہہ کر پکارتے ہیں،  جو نام بگاڑے یا تبدیل کرے وہی گناہ گار ہوگا، اس حوالے سے  شعور بیدار کرنا چاہیے۔  تاہم آپ کو اس کا اندیشہ ہے کہ لوگ نام بگاڑیں گے تو  ’’عبد السبحان‘‘   نام رکھنے  کی بجائے  انبیاءِ کرام علیہم  الصلوۃ والسلام، صحابہ کرام رضوان  اللہ علیہم اجمعین یا اولیاءِ کرام رحمہم اللہ کے ناموں میں سے کوئی نام منتخب کرکے رکھ لیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417):

’’ وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء، كذا في السراجية.

(قوله: لكن التسمية إلخ) قال أبو الليث: لا أحب للعجم أن يسموا عبد الرحمن وعبد الرحيم؛ لأنهم لا يعرفون تفسيره، ويسمونه بالتصغير تتارخانية وهذا مشتهر في زماننا، حيث ينادون من اسمه عبد الرحيم وعبد الكريم أو عبد العزيز مثلًا فيقولون: رحيم وكريم وعزيز بتشديد ياء التصغير ومن اسمه عبد القادر قويدر وهذا مع قصده كفر. ففي المنية: من ألحق أداة التصغير في آخر اسم عبد العزيز أو نحوه مما أضيف إلى واحد من الأسماء الحسنى إن قال ذلك عمدا كفر وإن لم يدر ما يقول ولا قصد له لم يحكم بكفره ومن سمع منه ذلك يحق عليه أن يعلمه اهـ. وبعضهم يقول: رحمون لمن اسمه عبد الرحمن، وبعضهم كالتركمان يقول حمور، وحسو لمن اسمه محمد وحسن، وانظر هل يقال الأولى لهم ترك التسمية بالأخيرين لذلك.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں