بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ کا ماں کے نیچے دب کر مرنے کا شک ہو تو کفارہ لازم ہو گا؟


سوال

ایک ماں اپنے بچے(دو ماہ کا بچہ) کے ساتھ سو رہی تھی، بچہ ماں کے ساتھ ایک چارپائی پر تھا، صبح کو ماں نے بچے کو نہیں دیکھا کہ بچہ کیسا ہے اور وہ چلی گئی، جب وہ بعد میں واپس آئی تو دیکھا کہ بچہ وفات پا چکا ہے، بچہ کی ماں کہہ رہی ہے کہ سوتے وقت میرا ہاتھ یا پاؤں بچہ پر نہیں آیا۔

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مذکورہ خاتون پر قتل کا کفّارہ آئے گا یا نہیں؟ جب کہ ہمارے علاقے کے ایک مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ بچہ کی ماں کو مسلسل دوماہ روزے رکھنے ہوں گے، اور شوہر سے بھی الگ ہوجائے، اور سحری بھی آدھی رات کو کرے گی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر بچے کی ماں کا غالب گمان یہی ہے کہ وہ خود یا اس کا ہاتھ بچے پر نہیں آیا تھا تو ایسی صورت میں اُس کے اوپر قتل کے احکامات (کفارہ وغیرہ) لازم نہیں ہوں گے۔

باقی جہاں تک آپ کے علاقہ کے ایک مفتی صاحب نے یہ کہا کہ " بچہ کی ماں کو مسلسل دوماہ روزے رکھنے ہوں گے" یہ حکم اُس وقت ہوتا جب بچے کی ماں کا غالب گمان یہ ہوتا کہ بچہ اس کے نیچے دب کر مرا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، نیز ان کا یہ کہنا کہ "شوہر سے بھی الگ ہوجائے" مذکورہ خاتون کے لیے ایسا کوئی شرعی حکم نہیں ہے، پھر ان کا یہ کہنا کہ  "سحری بھی آدھی رات کو کرے گی"سحری کا حکم اُس وقت ہو گا جب روزہ رکھنے حکم ہوتا، اور روزہ رکھنے کا حکم نہیں، اِس لیے سحری کا حکم بھی نہیں، اگر روزے کا حکم بھی ہوتا تو آدھی رات کو سحری کا حکم نہیں ہوتا۔ 

التشریع الجنائی میں ہے:

"أركان القتل الخطأ.

128 - للجناية على النفس خطأ ثلاثة أركان:

أولها: فعل يؤدى لوفاة المجنى عليه.

ثانيها: أن يقع الفعل خطأ من الجانى.

ثالثها: ‌أن ‌يكون ‌بين ‌الخطأ ونتيجة الفعل رابطة السببية.

142 - يشترط ليكون الجانى مسئولاً أن تكون الجناية قد وقعت نتيجة لخطئه: بحيث يكون الخطأ هو العلة للموت، وبحيث يكون بين الخطأ والموت علاقة السبب بالمسبب فإذا انعدمت السببية فلا مسئولية على الجانى."

(القسم الجنائی الخاص، الباب الاول، الفصل الاول، المبحث الثالث، جلد: 2، صفحہ: 108، طبع: دار الكاتب العربي، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں