بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ یا بچی کی پیدائش کے فوری بعد کے مسنون اعمال


سوال

 بچہ یا بچی کی پیدائش کے فوری بعد کے مسنون اعمال کیا کیا ہیں ؟   مثلاً بچے کے کان میں آذان و اقامت کہنے کی صحیح تعداد اور مسنون طریقہ ،وغیرہ

جواب

1.بچہ/بچی کو پاک کرنا:

بچے کی پیدائش کے بعد اس کے بدن میں جو رطوبت لگی ہوئی ہوتی ہے، اس کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ رطوبت پاک ہے، اس لیے وہ بچہ غسل سے پہلے بھی پاک ہے بشرط یہ کہ اس کے جسم میں خون  یا کوئی اور ناپاکی نہ لگی ہو،  اگر غسل دینا چاہیں، تو دے سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"نقل في التاتارخانیة: أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وکذا السخلة إذا خرجت من أمها، وکذا البیضة فلایتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فیه، وهو المختار، وعندهما یتنجس، وهو الاحتیاط، قلت: وهذا إذا لم یکن معه دم، ولم یخالطه رطوبة الفرج".

(کتاب الطھارة، باب الأنجاس، فروع في الاستبراء، ج:1، ص: 349، ط: سعيد)

2.کان میں اذان و اقامت :

نومولود کے کان میں اذان دینا سنت ہے، یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس بارے میں قولی وفعلی دونوں طرح کی احادیثِ مبارکہ موجودہیں۔

سنن الترمذی میں ہے:

"عن عبيد الله بن أبي رافع، عن أبيه قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌أذن ‌في ‌أذن ‌الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة".

(أبواب الأضاحي، باب الأذان في أذن المولود، ج:4، ص:97، رقم:1514، ط: مصطفى البابي الحلبي،مصر)

 نومولود کے دائیں کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہناسنت ہے۔ اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ بچے کوہاتھوں پراٹھاکرقبلہ رخ کھڑے ہوکردائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے اورحسبِ معمول "حی علی الصلاۃ" کہتے وقت دائیں طرف اور "حی علی الفلاح" کہتے وقت بائیں طرف منہ پھیراجائے،اذان کے وقت استقبالِ قبلہ کا لحاظ رکھا جائے، البتہ  کانوں میں انگلیاں نہ ڈالی جائیں، بلکہ ہاتھوں کو چھوڑ دیا جائے، بچہ اور بچی اس حکم میں یکساں ہیں ۔ یعنی دونوں کے لیے حکم یہ ہے کہ دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی جائے۔

شرح السنۃ میں ہے:

"روي أن عمر بن عبد العزيز كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي". (11/273)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ویترسل فیه ویلتفت فیه وکذا فیها مطلقاً یمیناً ویساراً بصلاة وفلاح، ولو وحده أو لمولود؛ لأنه سنة الأذان مطلقًا".

"و في البحر عن السراج: أنه من سنن الأذان، فلایخل المنفرد بشيء منها، حتی قالوا في الذي یؤذن للمولود: ینبغي أن یحول. (قوله مطلقاً) للمنفرد وغیره و المولود وغیره". 

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج:1، ص:387،ط: سعيد)

نوٹ:جس طرح نماز والی اذان میں15 کلمات ،اور اقامت میں 17کلمات ہیں ،اسی طرح بوقت ولادت نومولود پر دی جانے والی اذان،اقامت کے کلمات کی تعداد  بھی 15،اور 17 ہیں۔

3. تحنیک کروانا:

کسی بزرگ، اللہ والے سے بچہ/بچی کی تحنیک کروائی جائے،  تحنیک لغت میں کہتے ہیں:کھجور وغیرہ کو اچھی طرح چبا کرانگوٹھے میں لگاکر بچے کے تالو کے ساتھ مل دیا جائے۔

لسان العرب میں ہے:

"وفي حديث النبي،-صلى الله عليه وسلم-: أنه كان يحنك أولاد الأنصار؛ قال: والتحنيك ‌أن ‌تمضغ ‌التمر ثم تدلكه بحنك الصبي داخل فمه؛ يقال منه: حنكته وحنكته فهو محنوك ومحنك. وفي حديث ابن أم سليم لما ولدته وبعثت به إلى النبي، صلى الله عليه وسلم: فمضغ له تمرا وحنكه    أي دلك به حنكه".

(حرف الكاف، فصل الحاء المهملة، ج:10، ص:416، ط: دار صادر - بيروت)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي موسی قال : ’’ ولد لي غلام فأتیت به النبي ﷺ فسماه إبراهیم وحنکه بتمرة‘‘.

( کتاب الآداب، باب استحباب تحنیك المولود عند ولادته وحمله إلی صالح یحنکه وجواز التسمیة یوم ولادته الخ، ج: 6، ص: 175، رقم: 2145، ط : دار الطباعة العامرة)

4.عقیقہ اور اس کا جانور:

عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں: حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ’’عقیقہ‘‘ کی برکت سے بچہ کے اُوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں،عقیقہ میں لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کیا جائے، جیسا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سنن ا بی داود میں ہے:

"عن أم كرز الكعبية، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: عن ‌الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة. قال أبو داود: سمعت أحمد قال: مكافئتان: أي مستويتان أو مقاربتان."

(كتاب الضحايا، باب في العقيقة، ج:3، ص:105، رقم: 2834، ط:المكتبة العصرية)

5.عقیقہ کا دن :

بہتر یہ کہ بچے کے پیدا ہونے کے ساتویں دن عقیقہ کردیا جائے، ارشادِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

سنن ابی داود میں ہے:

"عن سمرة بن جندب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل غلام رهينة بعقيقته تذبح عنه ‌يوم ‌سابعه ويحلق ويسمى."

(كتاب الضحايا، باب في العقيقة، ج:3، ص:106، رقم: 2838، ط:المكتبة العصرية)

ترجمہ:  "ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہوتا ہے،  پیدائش کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا حلق کیا جائے"۔

اگر ساتویں دن عقیقہ نہ ہو تو  پھر چودہویں دن، ورنہ اکیسویں دن، اگر اِن دِنوں میں عقیقہ نہ کرسکے، تو عمر بھر میں کسی بھی دن میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے، البتہ بہتر ہے کہ جب بھی عقیقہ کیا جائے، پیدائش سے ساتویں دِن کا لحاظ کیا جائے، یعنی اگر منگل کے دن پیدائش ہے تو پیر کے دن عقیقہ کرلیا جائے۔

’’ إعلاء السنن ‘‘ میں ہے:

"عن بریدة أن النبي ﷺ قال: ’’ العقیقة لسبع أو أربع عشرة أو إحدی وعشرین‘‘. رواه الطبراني في الصغیر والأوسط".

(۱۷/۱۳۱، باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة)

فيض البارى شرح صحيح البخارى (5/ 88):

"ثم إن الترمذي أجاز بها إلى يوم إحدى وعشرين. قلتُ: بل يجوز إلى أن يموت، لما رأيت في بعض الروايات أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلّم عقّ عن نفسه بنفسه".

6.نومولود کے سر  کے بال کاٹنااور چاندی صدقہ کرنا:

عقیقہ کے دن نومولود کے سر کے بال کاٹ دینے کے بعد بالوں کے ہم وزن  چاندی یا اس کے وزن کے بقدر رقم  صدقہ کرنا مسنون ہے۔ اگر نومولود خدانخواستہ وینٹی لیٹر میں ہو تو اس کے بال بعد میں کاٹ لیے جائیں۔

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسنؓ کے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی اور فرمایا: فاطمہؓ! اس کا سر منڈواؤ اور اس کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرو۔ (ترمذی)

"عن علي قال: عقّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلّم عن الحسن بشاة فقال: یا فاطمة! احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره، فکان وزنه درهماً أو بعض درهم".

(المصنف لابن أبي شیبة ۱۲؍۳۱۹ بتحقیق الشیخ محمد عوامة، جامع الترمذي: ۱۵۱۹، إعلاء السنن ۱۷؍۱۱۹، جامع الترمذي: ۱؍۲۷۸،مسائل قربانی وعقیقه۵۳)

7.زعفران لگانا: 

عقیقہ کے دن سر منڈانے کے بعد بچہ کے سر پر زعفران وغیرہ خوش بو  لگانے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن بریدة رضي اللّٰه عنه قال: کنا في الجاهلیة إذا ولد لأحدنا غلام ذبح شاةً ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الإسلام کنّا نذبح الشاة یوم السابع ونحلق رأسه ونلطخه بزعفران".

(رواه أبوداود حدیث: ۲۸۴۳، مشکاة المصابیح مع المرقاة ۸؍۸۲)

8.بچہ/بچی کا نام رکھنا: 

بہتر ہے کہ جس دن عقیقہ کیا جائے اسی دن بچہ/بچی  کا اچھا سا نام بھی رکھ دیا جائے، بچوں کے ناموں کے لیے بہتر یہ ہے کہ ان  کا ایسا نام رکھا جائے جس سے اسلام کے تشخص کا اظہار ہو، اس کے لیے صحابہ /صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین /تابعات رحمہم اللہ اور مسلمانوں میں مانوس ناموں پر نام رکھا جائے۔

ہماری ویب سائٹ اور ایپلی کیشن میں " اسلامی نام "کےعنوان سے ایک آپشن موجود ہے، جس میں سے آپ نام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إنكم ‌تدعون ‌يوم ‌القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم»".

(كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء، ج:4، ص:287، رقم:4948، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

" قیامت کے دن تم اپنے ناموں سے اور اپنے والد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا اپنے (اور اپنے بچوں کے) نام خوبصورت رکھا کرو۔"

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط".

(كتاب الكراهية، الباب الثاني والعشرون، ج:5، ص:362، ط: رشيدية)

وأيضا:

"عن سمرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «كل غلام رهينة بعقيقته تذبح عنه يوم السابع ويحلق رأسه ويدمى".

( سنن أبي داؤد، حدیث: ۲۸۳۷، ترمذی شریف ۱۵۲۲ )

9.بچہ کا ختنہ کرنا:

ختنہ اسلام کا شعار اور سنتِ مؤکدہ ہے، اس لیے بچپن ہی میں بچے کی ختنہ کا اہتمام ہونا چاہیے،ختنہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں ہے، اس لیے اس میں بچہ کی صحت اور حالت کو دیکھ کر مناسب وقت تجویز کرنا چاہیے۔

"واختلفوا في الختان، قیل: إنه سنة، هو الصحیح". (عالمگیري ۵؍۲۵۷)

"والأشبه عند الحنفیة: أن العبرة بطاقة الصبي إذ لا تقدیر فیه، فیترك تقدیره إلی الرأي". (الموسوعة الفقهیة ۱۹؍۲۹)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101993

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں