بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد حاصل کرنے کے لیے Gestational surrogacy یعنی میاں بیوی کے جنین کو اجنبی عورت کے رحم میں ڈالنے کا حکم


سوال

میری عمر 35 سال ہے اور میری بیوی کی عمر 34 سال، ہماری شادی کو 7 سال ہو چکے ہیں۔ اپنی شادی کے آغاز سے ہی ہم نےکوشش کی کہ حمل ٹھہر جائے اور متعدد چیک اپ اور علاج کروائے۔ آخر کار میری بیوی 2020 میں حاملہ ہو گئی مگر بدقسمتی سے حمل ساقط ہو گیا۔ اگست 2021 میں دوبارہ حاملہ ہوئی، پورے حمل کے دوران پیچیدگیاں تھیں اور اسقاط حمل کا خطرہ تھا، دو بار ہسپتال میں کئی دنوں تک داخل کیا گیا اور اس کے علاوہ کئی بار ایمرجنسی میں لے جایا گیا۔ 19 فروری 2022 کو وہ 7 ماہ کی حاملہ تھیں اور دوبارہ شدید پیچیدگی پیدا ہوئی، ہم ہسپتال پہنچ گئے، دو دن کے ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد ڈاکٹروں نے ایمرجنسی سیزرین سیکشن کرنے (یعنی آپریشن کے ذریعے بچہ کی ولادت)کا فیصلہ کیا  کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا تھا۔ 21 فروری 2022 کو بچے کی پیدائش 7 ماہ کی حمل کی عمر میں ہوئی۔ ڈیلیوری کے دوران میری بیوی کی حالت انتہائی خراب  تھی اور یہ جان لیوا حالت تھی اور کئی گھنٹے تک سرجری جاری تھی، اس کے بعد ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کے لیے بچہ دانی نکالنے کا کہا۔ پھر subtotal hysterectomy کی گئی ( یعنی بچہ دانی کو ہٹا دیا گیا لیکن دونوں بیضہ دانی رہ گئیں)۔ پھر اسے وینٹی لیٹر پر شفٹ کیا گیا اور الحمدللہ اب وہ صحت یاب ہو چکی ہیں۔ مزید برآں، جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 7 ماہ کی حمل کی عمر کے ایک بچے سے نوازا۔ قبل از وقت ولادت ہونے کی وجہ سے اسے ہسپتال میں انفیکشن ہوا اور سیپسس (یعنی قوتِ مدافعت میں خرابی) کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے اسے بچانے کی پوری کوشش کی لیکن نہیں بچا سکے۔ وہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اسپتال میں داخل رہا اور آخرکار وہ زندہ نہ رہا۔

اب ہم دوبارہ بچوں کے بغیر ہیں اور میری بیوی کے پاس بچہ دانی نہیں لیکن بیضہ دانی ہے۔ کیونکہ یہ میری بیوی کے لیے ایک بہت بڑا جسمانی اور نفسیاتی صدمہ ہے۔ وہ بچہ جننے کی حد سے زیادہ خواہش مند ہے لیکن بدقسمتی سے اب اس کے لیے یہ ممکن نہیں، کیونکہ اس کے پاس بچہ دانی نہیں ہے۔ لیکن اسے ایک امید ہے کیونکہ اس کے جسم میں بیضہ دانی ہے۔ مذکورہ بالا حالات میں کیا ہم Gestational surrogacy کروا سکتے ہیں ؟(جس میں میرا نطفہ میری بیوی کے بیضہ کے ساتھ مل جائے گا اور لیبارٹری ٹیوب میں fertelize  کر ایک جنین بنائے گا۔ وہ جنین پرورش اور نشوونما کے لیے دوسری عورت کے جسم میں ڈالا جائے گا)۔

نوٹ: اس تمام عمل میں دوسری عورت میں سپرم یا بیضہ نہیں ڈالا جائے گا، بلکہ اس کے جسم  میں ایک تشکیل شدہ جنین  رکھیں  گے۔ اس کے مطابق رہنمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے مادہ منویہ اور بیوی کے بیضہ سے لیبارٹری ٹیوب کے ذریعہ تشکیل کیے گئے جنین(embryo) کو نشو و نما کے لیے اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا شریعت کی نظر میں ناجائز اور حرام ہے، اگر ایسا کیا گیا تو اس بچے کی ماں وہ اجنبی عورت ہو گی جس کے رحم میں بچے نے نشو و نما پائی ہے اور بچے کا نسب آپ سے ثابت نہ ہوگا، لہذا آپ اس کے شرعی والد قرار نہیں پائیں گے اور وراثت، پرورش وغیرہ کے احکام بھی آپ سے ثابت نہیں ہوں گے۔

قرآن پاک میں صراحت کےساتھ ماں اس عورت کو قرار دیا گیا ہے جو بچے کو جنے، سورۃ المجادلۃ میں ارشاد ہے:

"إِنْ أُمَّهاتُهُمْ إِلَاّ اللَاّئِي وَلَدْنَهُم(2)"

"ترجمہ: ان کی مائیں تو بس وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنا ہے "۔

مفتی عبد السلام رحمہ اللہ فتاویٰ بینات میں شائع شدہ تفصیلی فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:

"اپنی منکوحہ عورت یا مملوکہ لونڈی کے سوا دوسری عورت کو خواہ قضاء شہوت کے لیے استعمال کیا جائے یا حصولِ اولاد کے لیے، رضا و رغبت سے ہو یا جبر و اکراہ سے، عاریت اور ہبہ کے طور پر یا کرئے کے طور پر سب صورتیں گناہ کے لحاظ سے زنا میں شامل ہیں"۔

(فتاویٰ بینات، کتاب الحظر والاباحہ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی شرعی حیثیت، 4/295، ط: مکتبہ بینات)

آپ حضرات اللہ تعالیٰ کے اس فیصلہ پر راضی رہیں اور اولاد کے حصول کے لیے کسی قسم کے ناجائز اقدام کا ہرگز ارتکاب نہ کریں،  آپ دونوں کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ کسی بچے کو گود لے لیں، تاہم اگر کسی اجنبی شخص کی اولاد کو گود لیا تو اس کے بالغ ہونے کے بعد پردے وغیرہ کے احکام لاگو ہوں گے، ایسی صورت میں اگر گود لیے گئے بچے کو آپ کی بہن یا آپ کی بیوی کی بہن وغیرہ دودھ پلا دے تو اس بچے سے آپ کا رضاعی رشتہ ثابت ہو جائے گا، اسی طرح اگر اپنے رشتہ داروں میں سے کسی بچے کو گود لے لیں تب بھی پردے کے احکامات اس رشتہ کے اعتبار سے ثابت ہوں گے، تاہم بچے کا نسب اس کے حقیقی والدین ہی سے ثابت ہوگا۔

فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کیجیے:

(sarrugate mother)سروگیٹ مدر کی شریعت میں اجازت نہیں ہے

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101814

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں