بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ اور بچی کی پردے کی عمر


سوال

بچہ اور  بچی  کی  پردہ  کی عمر کیا ہے؟

جواب

پردے  کی عمر کا مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے، لہٰذا لڑکا جب اتنی عمر کا ہوجائے جس میں اس کو شہوت آتی ہو یا اس کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، فقہاءِ کرام نے لڑکے کی بلوغت کی کم سے کم عمر 12 سال لکھی ہے، اس سے پہلے بلوغت کے سلسلے میں لڑکے کا دعویٰ معتبر نہیں ہے ۔ ہاں اگر کسی لڑکے میں 12 سال کی عمر سے پہلے ہی لڑکیوں کی طرف میلان محسوس کیا جائے تو  اسی عمر سے پردہ کرنا چاہیے۔

اور بچی پر پردہ کی فرضیت تو دیگر احکام کی طرح بالغ ہونے کے ساتھ ہی ہوتی ہے،البتہ لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر 9 سال ہے  ؛ اس  لیے فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ نو برس کی عمر سے باہر نکلتے  وقت اس کی عادت ڈال دی جائے، خصوصًا اس پرفتن دور میں اس کا اہتمام   بہت ہی ضروری ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 36):
" ومراهق، ومجنون وسكران كبالغ، بزازية. (قوله: كبالغ) أي في ثبوت حرمة المصاهرة بالوطء، أو المس  أو النظر ولو تمم المقابلات بأن قال كبالغ عاقل صالح لكان أولى ط وفي الفتح: لو مس المراهق وأقر أنه بشهوة تثبت الحرمة عليه. (قوله: بزازية) لم أر فيها إلا المراهق دون المجنون والسكران نعم رأيتهما في حاوي الزاهدي". 

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (4/ 2966):

والبلوغ يحصل إما بظهور علامة من علاماته الطبيعية كاحتلام الولد (أي الإنزال) ومجيء العادة الشهرية (الحيض) عند الأنثى، أو بتمام الخامسة عشرة عند جمهور الفقهاء غير أبي حنيفة لكل من الفتى والفتاة، وعليه الفتوى والعمل، جاء في المادة (985 مجلة): «يثبت حد البلوغ بالاحتلام والإحبال والحيض والحبل» ونصت المادة (986 مجلة): «على أن منتهى البلوغ خمس عشرة سنةً»".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4472):

"البلوغ: يحدث البلوغ إما بالأمارات الطبيعية أو بالسن. أما الأمارات أو العلامات الطبيعية، فاختلفت المذاهب في تعدادها:
فقال الحنفية (3): يعرف البلوغ في الغلام بالاحتلام، وإنزال المني، وإحبال المرأة. والمراد من الاحتلام هو خروج المني في نوم أو يقظة، بجماع أو غيره".

الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (6/ 4473):

"وأدنى مدة البلوغ للغلام اثنتا عشرة سنةً، وللأنثى تسع سنين، وهو المختار عند الحنفية".

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205200932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں