بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کی پرورش کا حق ماں کو ہے جب تک کہ نامھرم سے شادی نہ کرلے


سوال

بچے کی پرورش کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ سات سال کی عمر تک بچے کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے،  لیکن اگر وہ کسی بچے کے نامحرم سے شادی کر لے تو اس کا حق پرورش ساقط ہو جاتا ہے۔سوال  یہ ہے کہ نامحرم کے ساتھ شادی کرنے کی بنا پر ماں کا حق پرورش کیوں ساقط ہو جاتا ہے؟

جواب

   مذکورہ مسئلے کی دلیل  میں دو روایتیں ہیں :

حضرت      عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد کی سند سے روایت کی ہےکہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول، میرا پیٹ اس بیٹے کے لیے برتن تھا ،  گود اس  کے لیے محفوظ جگہ ہے، اور میرے سینے اس کیلئے سیرابی کی جگہ ہے، اور( علیحدگی کے بعد) اس کے والد نےسے مجھ سے دور کر دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس پر اس سے زیادہ حق دار ہو جب تک کہ تم شادی نہ کرو۔

نیز حضرت  سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ  عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو  طلاق دے دی، اوراپنے بیٹے عاصم کے بارے میں  بحث ہوئی تووہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے   توابوبکر رضی اللہ عنہ نے عاصم بن عمر کے بارے میں فیصلہ کیا :  اپنی ماں کے پاس رہےجب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے یا  (ان کی ماں) شادی نہ کر لے۔ 

نیز  اس معاملے میں شریعت نے  بچے  سے قرابت اور شفقت کا لحاظ کیا ہے، اگر  اس کی ماں کسی نامحرم سے شادی کرلے گی تو اس شوہر کی  بچے کے لیے شفقت نہ ہوگی ، جس سے بچہ کو نقصان کا خدشہ ہے؛ اس لیے شریعت نے اس صورت میں ماں کے مقابلے میں دوسروں کو جیسا کہ نانی خالہ  کو مقدم کیا ہے، اسی  لیے اگر اس کی ماں اس کےنامحرم سے رشتہ ختم کرلے اور علیحدگی ہو جائے تو  اس کا حق دوبارہ لوٹ آتا ہے۔نیز یہاں محرم سے مراد یہ ہے کہ بچہ سے رحم کا رشتہ ہو ، ورنہ  اگر ماں اس بچہ کے رضاعی  چچا سے شادی کرلے تو   بھی  ماں کا حق پرورش ساقط ہو جائے گا۔

 بدائع میں ہے:

"و منها أن لاتكون ذات زوج أجنبي من الصغير فإن كانت فلا حق لها في الحضانة، وأصله ما روى عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن امرأة أتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله إن ابني هذا كان بطني له وعاء وحجري له حواء وثديي له سقاء ويزعم أبوه أن ينزعه مني فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنت أحق به منه ما لم تنكحي».

و روي عن سعيد بن المسيب أنه قال: طلق عمر -رضي الله عنه- أم ابنه عاصم -رضي الله عنه- فلقيها ومعها الصبي فنازعها و ارتفعا إلى أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- فقضى أبو بكر - رضي الله عنه - بعاصم بن عمر - رضي الله عنهم - لأمه ما لم يشب أو تتزوج وقال: إن ريحها وفراشها خير له حتى يشب أو تتزوج، وذلك بمحضر من الصحابة - رضي الله عنهم - ولأن الصغير يلحقه الجفاء والمذلة من قبل الأب؛ لأنه يبغضه لغيرته وينظر إليه نظر المغشي عليه من الموت و يقتر عليه النفقة فيتضرر به حتى لو تزوجت بذي رحم محرم من الصبي لايسقط حقها في الحضانة كالجدة إذا تزوجت بجد الصبي أو الأم تزوجت بعم الصبي أنه لايلحقه الجفاء منهما لوجود المانع من ذلك وهو القرابة الباعثة على الشفقة، ولو مات عنها زوجها أو أبانها عاد حقها في الحضانة؛ لأن المانع قد زال فيزول المنع ويعود حقها وتكون هي أولى ممن هي أبعد منها كما كانت.:

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 42) ط: دار الكتب العلمية)

شامی میں ہے:

"(قوله: بغير محرم) أي من جهة الرحم فلو كان محرما غير رحم كالعم رضاعا، أو رحما من النسب محرما من الرضاع كابن عمه نسبا هو عمه رضاعا فهو كالأجنبي."

(رد المحتار ط الحلبي (3/ 557)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں