ایک حدیث کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جس کا تعلق مرد و عورت کے نطفے سے بچے کے پیدا ہونے کے عمل سے ہے۔صحیح مسلم میں باب "بيان صفة منى الرجل والمرأة وان الولد مخلوق من مائهما" کے تحت دو احادیث بیان ہوئی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
"حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ وَهُوَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ، عَنْ زَيْدٍ، يَعْنِي أَخَاهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو أَسْمَاءَ الرَّحَبِيُّ، أَنَّ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، فَجَاءَ حِبْرٌ مِنْ أَحْبَارِ الْيَهُودِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ. فَدَفَعْتُهُ دَفْعَةً كَادَ يُصْرَعُ مِنْهَا فَقَالَ: لِمَ تَدْفَعُنِي؟ فَقُلْتُ: أَلَا تَقُولُ: يَا رَسُولَ اللهِ؟ فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: إِنَّمَا نَدْعُوهُ بِاسْمِهِ الَّذِي سَمَّاهُ بِهِ أَهْلُهُ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اسْمِي مُحَمَّدٌ الَّذِي سَمَّانِي بِهِ أَهْلِي»، فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: جِئْتُ أَسْأَلُكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيَنْفَعُكَ شَيْءٌ إِنْ حَدَّثْتُكَ؟» قَالَ: أَسْمَعُ بِأُذُنَيَّ، فَنَكَتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُودٍ مَعَهُ، فَقَالَ: «سَلْ» فَقَالَ الْيَهُودِيُّ: أَيْنَ يَكُونُ النَّاسُ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُمْ فِي الظُّلْمَةِ دُونَ الْجِسْرِ» قَالَ: فَمَنْ أَوَّلُ النَّاسِ إِجَازَةً؟ قَالَ: «فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ» قَالَ الْيَهُودِيُّ: فَمَا تُحْفَتُهُمْ حِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: «زِيَادَةُ كَبِدِ النُّونِ»، قَالَ: فَمَا غِذَاؤُهُمْ عَلَى إِثْرِهَا؟ قَالَ: «يُنْحَرُ لَهُمْ ثَوْرُ الْجَنَّةِ الَّذِي كَانَ يَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِهَا» قَالَ: فَمَا شَرَابُهُمْ عَلَيْهِ؟ قَالَ: «مِنْ عَيْنٍ فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا» قَالَ: صَدَقْتَ. قَالَ: وَجِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنْ شَيْءٍ لَا يَعْلَمُهُ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ رَجُلٌ أَوْ رَجُلَانِ. قَالَ: «يَنْفَعُكَ إِنْ حَدَّثْتُكَ؟» قَالَ: أَسْمَعُ بِأُذُنَيَّ. قَالَ: جِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنِ الْوَلَدِ؟ قَالَ: «مَاءُ الرَّجُلِ أَبْيَضُ، وَمَاءُ الْمَرْأَةِ أَصْفَرُ، فَإِذَا اجْتَمَعَا، فَعَلَا مَنِيُّ الرَّجُلِ مَنِيَّ الْمَرْأَةِ، أَذْكَرَا بِإِذْنِ اللهِ، وَإِذَا عَلَا مَنِيُّ الْمَرْأَةِ مَنِيَّ الرَّجُلِ، آنَثَا بِإِذْنِ اللهِ». قَالَ الْيَهُودِيُّ: لَقَدْ صَدَقْتَ، وَإِنَّكَ لَنَبِيٌّ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَذَهَبَ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَقَدْ سَأَلَنِي هَذَا عَنِ الَّذِي سَأَلَنِي عَنْهُ، وَمَا لِي عِلْمٌ بِشَيْءٍ مِنْهُ، حَتَّى أَتَانِيَ اللهُ بِهِ. "
دوسری ایک روایت میں ہے کہ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدُ وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ ان احادیث میں مرد اور عورت کے پانی کے غالب ہونے کا ذکر آیا ہے۔
لیکن آج کل کے سائنسی مطالعے کے مطابق، بچے کی جنس کا تعین X اور Y کروموسوم کے ذریعے ہوتا ہے، جو مرد کے نطفے میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر مرد کا نطفہ X کروموسوم لے کر جائے تو بچی پیدا ہوتی ہے اور اگر Y کروموسوم لے کر جائے تو بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا ان احادیث کی تشریح کو موجودہ سائنسی معلومات کے مطابق سمجھا جاسکتا ہے؟ اور اس حوالے سے علماء کی رائے کیا ہے؟
شارحينِ حدیث نےمذكوره احاديث كی اس طرح تشریح فرمائی ہیں کہ:
۱- پانی (منی )کا غالب آنا یہ علت ہے بچے کے مشابہ بن کر آنے کے لیے ، تو جس کا پانی(منی) غالب آگیا بچہ اسی کے مشابہ ہوگا۔
۲- پانی کے رحم میں پہلے پہنچنے کو شارحین حدیث نے بچے کے مذکر ومؤنث بن کر آنے کے لیے علت قرار دیا ہے، تو ماں باپ میں جس کا پانی رحم مادر میں پہلے پہنچ گیا، بچہ اسی کے مطابق مذکر یا مؤنث بن کر آئے گا۔
سوال میں مذکورحدیث ِ ثوبا ن رضی اللہ عنہ سے یہ تشریح مطابقت نہیں رکھتی کہ اس میں آنحضرتﷺ نے صرف’’علا‘‘کا لفظ استعمال فرمایا ہےکہ پانی کا غالب آنا بچے کے مذکر اور مؤنث بن کر آنے کے لیے علت ہے ، وہاں ’’سبق‘‘ کا لفظ نہیں ہے جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔
ان روایات کے درمیان اس تضاد اور تعارض کو علامہ محمد بن خلیفہ وشتانی الاُبّی المالکی (المتوفي:828ھ) نے دور فرمایا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ :یعنی رحمِ مادَر میں پانی(منی ) کا پہلے پہنچنا مذکر یا مؤنث ہونے کی علت ہے، اور پانی کا غالب آنا چچاؤں اور ماموؤں کے ساتھ مشابہت کی علت ہے، تو مجموعی اعتبار سے یہاں چار صورتیں بنتی ہیں ، جو درج ذیل ہیں :
(۱) اگر مرد کاپانی رحم میں پہلے پہنچ گیا اور عورت کے پانی پر غالب بھی آگیا تو بچہ لڑکا ہوگا اور چچاؤں کے مشابہ ہوگا۔
(۲) اگر عورت کا پانی رحم میں پہلے پہنچ گیا اور مرد کے پانی پر غالب بھی آگیاتو بچہ لڑکی ہوگی اور ماموؤں کے مشابہ ہوگی۔
(۳) اگر مرد کا پانی رحمِ مادَر میں پہلے پہنچ گیا مگر عورت کا پانی اس پر غالب آگیا تو بچہ لڑکاہوگالیکن ماموؤں کے مشابہ ہوگا۔
(۴) اگر عورت کا پانی رحم میں پہلے پہنچ گیا مگر مرد کا پانی اس پر غالب آگیا تو بچہ لڑکی ہوگی لیکن چچاؤں کے مشابہ ہوگی۔
خلاصہ یہ کہ رحم میں پانی کا پہلے پہنچنا تذکیر وتانیث پر اثر انداز ہوجاتا ہے، اور پانی کا غالب ہوجانا مشابہت پر اثر انداز ہوتا ہے ۔
’’شرح الاٌبّی (اکمال اکمال المعلم) ‘‘ میں ہے :
" وزعم بعضهم أن العلوّ علة تشبه الأعمام والأخوال، والسبق علة الأذكار والإيناث، وهذا التفصيل يرد بأنه في حديث الحِبر جل العلوّ علة الأذكار والإيناث.قلتُ: لصحة تفسير العلوّ فيه بالسبق إلى الرّّحِم، لأن ما علا سبق ويتعين تفسيره بذلك بأنه في حديث المرأة جعل العلوّ علة شبه الأعمام والأخوال، وجعله في حديث الحبر علة الأذكار والإيناث، فلو أبقينا العلوّ في حديث الحبر على بابه لزم بمتضى الحديث أن يكون العلوّ علة في شبه الأعمام والأخوال و(علة) في الأذكار والإيناث، ولا يصح، لأن الحس يكذبه، لأنا نشاهد الولد ذكرا ويشبه الأخوال، ووجه الجمع بين أحاديث الباب أن يكون الشبه المذكور في هذا الحديث يعني به الشبه الأعم من كونه في التذكير والتأنيث، وشبه الأعمام والأخوال، والسبق إلى الرحم علة التذكير والتأنيث، والعلوّ شبه الأعمام والأخوال، ويخرج من مجموع ذلك أن الأقسام أربعة:
(1) إن سبق ماء الرجل وعلا أذكر وأشبه الولد أعمامه.
(2) وإن سبق ماء المرأة وعلا آنث وأشبه الولد أخواله.
(3) وإن سبق ماء الرجل وعلا ماؤها أذكر وأشبه الولد أخواله.
(4) وإن سبق ماء المرأة وعلا ماؤه آنث وأشبه الولد أعمامه."
(اكمال اكمال المعلم، (2/ 87 و88)، ط/ دار الكتب العمية بيروت)
ان احادیث کو سوال میں بیان کردہ میڈیکل سائنس کی بیان کردہ تحقیق کی روشنی میں سمجھنے سے گر احادیث میں بیان کردہ معنی ومفہوم کی مخالفت لا زم نہ آتی ہو تو اسے اس کے مطابق سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ رحم میں عورت کے پانی کے پہلے پہنچنے سے مرد کے نطفہ میں موجود X کروموسوم عورت کے رحم میں چلے جاتے ہیں ،جس سے میڈیکل سائنس کی مذکورہ تحقیق کے مطابق لڑکی پیدا ہوتی ہے، اور اگر رحم میں عورت کا پانی پہلے نہ پہنچا، بلکہ مرد کا پانی پہلے پہنچا تواس صورت میں مرد کے نطفہ میں موجود Y کروموسوم عورت کے رحم میں داخل ہوجاتے ہیں ، جس سے میڈیکل سائنس کی مذکورہ تحقیق کے مطابق لڑکا پیدا ہوتا ہے ۔ لیکن اگر اس تحقیق کا یہ مفہوم ومعني مراد لینا کہ بچہ کے لڑکا اور لڑکی ہونے میں عورت کے پانی کا کوئی دخل ہی نہیں ہوتا ، بلکہ یہ صرف مرد کے پانی کی خاصیت ہے، یہ تشریح احادیث مبارکہ کی بیان کردہ کے تفصیل کے خلاف ہے ، لہذا اس معني کر میڈیکل سائنس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، نیز میڈیکل سائنس کی تحقیقات گزرتے زمانہ کے ساتھ بدلتی بھی رہتی ہیں ، لہذا ان تحقیقات کو بنیادبنا کر احادیث مبارکہ کو ان کے تابع کرکے سمجھنا درست عمل نہیں ۔
اس حوالہ سے علامہ سنوسی ؒ (المتوفي:895ھ) نے علامہ اُبّی ؒ کی شرح مسلم کی شرح کرتے ہوئے ’’مکمّل اکمال الاکمال‘‘ میں علامہ اُبّی کے مذکورہ اشکال وجواب کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ :
"وللأطباء في هذا أقوال أخر، والصحيح ما في الحديث."
یعنی اطباء كے اس میں دیگر اقوال بھی ہیں ، لیکن صحیح بات وہی ہے جو کہ حدیث شریف میں ہے۔
(مکمّل اكمال اكمال، (2/ 87 و88)، ط/ دار الكتب العمية بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101206
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن