بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے آپریشن سے بند کردیے ہوں توطلاق کی عدت کا حکم


سوال

میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میں اپنے شوہرسے طلاق لے رہی ہوں ، ڈاکٹرنے میرے بچے آپریشن سے بندکردیے ہیں، کیا میرےلیے عدت گزارنالازم ہوگی ؟ یامیں دوسری شادی بناعدت گزارے کرسکتی ہوں ، براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں ۔ اورشوہربھی طلاق دینے پر رضامند ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق یافتہ عورت کی بچہ دانی اگر کسی وجہ سے بند ہو تب بھی اس پر عدت گزارنا لازم ہے، کیوں کہ عدت کا صرف ایک ہی مقصد نہیں ہیں، بلکہ عدت کے کئی مقاصد ہیں،  عدت کا ایک مقصد تو  استبراءِ رحم یعنی بچہ دانی کے خالی اور فارغ ہونے کا یقین ہونا ہے، کیوں کہ اس میں نسب کی حفاظت  ہے۔  عدت کا دوسرا مقصد رشتہ نکاح کی عظمت و فخامت کا اظہار ہے کہ یہ رشتہ نہ تو انتہائی آسانی سے بن سکتا ہے اور نہ ہی انتہائی آسانی سے ختم ہوسکتا ہے، بلکہ مکمل طور سے ختم ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو نکاح کو بچوں کا کھیل سمجھ لیا جاتا کہ جب چاہا نکاح کرلیا اور جب چاہا ایک شوہر سے نکاح توڑ کر فورا دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا جاتا۔ عدت کا تیسرا مقصد اس رشتہ کے منقطع ہونے پر ملال وحزن کا اظہار  ہے۔

اور ان مقاصد سے بڑھ کر اصل بات یہ ہے کہ عدت گزارنا اللہ تعالی کا حکم ہے، عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، حاملہ ہو یا غیر حاملہ، اسے حیض آتا ہو یا وہ ایسی عمر میں ہو جس میں حیض نہ آتا ہو، ان تمام صورتوں میں عدت کے اَحکام اللہ تعالیٰ  نے قرآنِ کریم میں صراحتاً بیان فرمادیے ہیں، اور ہم سب اللہ رب العزت کے بندے ہیں اور قرآنِ کریم کے منصوص اَحکام کی حکمت و مقصد سمجھ میں نہ آئے تو بھی اسے دل سے تسلیم کرلینا ہی شانِ بندگی ہے۔  نیز جب کسی عورت کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوجائے تو وہ بچہ جننے کے قابل بھی نہیں رہتی، اس صورت میں بھی قرآنِ مجید نے اس کی عدت خود بیان کی ہے، اس سے بھی واضح ہوا کہ عدت کا مقصد صرف استبراءِ رحم نہیں ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں   آپریشن کے ذریعے بچے پیداکرنے کی صلاحیت ختم کرنے کے باوجودطلاق ہوجانے کی صورت میں دوسری شادی سے پہلےسائلہ پر طلاق کی عدت گزارنالازم ہے عدت کے گزارے بغیردوسری شادی کرناجائز نہیں ہوگا۔

اب اگرسائلہ نےمستقل بنیاد پر  آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوائی ہو، یا کوئی ایسا طریقہ اپنایاہو جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی ہےاورآپریشن کے عمل کوکم از کم چھ ماہ کا عرصہ گزرچکاہے تووہ آئسہ کے حکم میں ہے، یعنیوہمہینوں کےاعتبارسےتین مہینےعدت گزارےگی تو اس کی عدت مکمل ہوجائے گی۔

تاہم ملحوظ رہے کہ بچوں کی صلاحیت بالکل ختم کروانا شرعًا جائز نہیں ہے۔

اوراگر توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت عارضی طورپر ختم کی ہے تو ایسی صورت میں  وہ عارضی تدبیرختم کرانےکےلیے اپنا علاج کرائے،  تاکہ حیض معمول کے مطابق شروع ہوجائے، اگر علاج سے افاقہ ہوجائے اور حیض شروع ہوجائے تو حیض کے حساب سے ہی عدت پوری کرے گی۔اور اگر علاج کے باوجودبھی لمبی مدت تک حیض نہ آئےتوطلاق کے بعد وہ ایک سال تک انتظار کرتی رہے، اگر ایک سال تک اس کو حیض نہ آئے تویہ ایک سال عدت میں شمار کیے جائیں گےاوراس کی عدت مکمل  شمار ہوگی۔البتہ مہینوں کے اعتبارسے عدت گزارنے کےبعداگردوبارہ حیض آجائے توسابقہ عدت کالعدم شمارہوگی اورنئے سرےسےحیض کے اعتبارسے دوبارہ عدت گزارناضروری ہوگا۔

حجة الله البالغة  ميں هے :

"قال الله تعالى: {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} إلى أخر الآيات.

اعلم أن العدة كانت من المشهورات المسلمة في الجاهلية، وكانت مما لايكادون يتركونه، وكان فيها مصالح كثيرة:

منها: معرفة براءة رحمها من مائه، لئلاتختلط الأنساب، فانّ النسب أحد ما يتشاح به، ويطلبه العقلاء، وهو من خواصّ نوع الإنسان، ومما امتاز به من سائر الحيوان، وهي المصلحة المرعية من باب الاستبراء.

ومنها: التنويه بفخامة أمر النكاح حيث لم يكن أمرًا ينتظم إلا بجمع رجال، ولاينفك إلا بانتظار طويل، ولولا ذلك لكان بمنزلة لعب الصبيان ينتظم، ثم يفك في الساعة.

ومنها: أنّ مصالح النكاح لاتتم حتى يوطنا أنفسهما على إدامة هذا العقد ظاهرًا، فإن حدث حادث يوجب فكّ النظام لم يكن بدّ من تحقيق صورة الإدامة في الجملة بأن تتربصّ مدّةً تجد لتربّصها بالًا، وتقاسي لها عناء."

(حجة الله البالغة ، العدة ، 2/ 219 ط: دارالجيل بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية.

 (قوله: فالأولى إلخ) بيان لحكمة كونها ثلاثا مع أن مشروعية العدة لتعرف براءة الرحم أي خلوه عن الحمل وذلك يحصل بمرة فبين أن حكمة الثانية لحرمة النكاح أي لإظهار حرمته، واعتباره حيث لم ينقطع أثره بحيضة واحدة في الحرة والأمة، وزيد في الحرة ثالثة لفضيلتها."

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطلاق ، باب العدۃ ،3/ 505ط سعید)

فتح القدير ميں هے :

"لأنّ العدة وجبت للتعرف عن براءة الرحم في الفرقة الطارئة على النكاح ... ثمّ كونها تجب للتعرف لاينفي أن تجب لغيره أيضًا، وقد أفاد المصنف فيما سيأتي أنها أيضًا تجب لقضاء حق النكاح بإظهار الأسف عليه، فقد يجتمعان كما في مواضع وجوب الأقراء، وقد ينفرد الثاني كما في صور الأشهر."

(فتح القدير للكمال ابن الهمام، كتاب الطلاق ، باب العدة 4/ 308ط: دارالفكر)

ارشادباری تعالی ہے :

"وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ "

(سورۃ الطلاق  الآیۃ : 4 )

فتاوی عالمگیری میں ہے :

"(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر) .بأن بلغت سن الإياس (أو بلغت بالسن) وخرج بقوله (ولم تحض) الشابة الممتدة بالطهر بأن حاضت ثم امتد طهرها، فتعتد بالحيض إلى أن تبلغ سن الإياس جوهرة وغيرها".

(الدرالمختار كتاب الطلاق،  باب العدة ۳/ ۵٠۷ ط:سعيد) 

فتاوی شامی میں ہے :

"لكن قد علمت أن المعتمد عند المالكية تقدير المدة بحول ونقله أيضاً في البحر عن المجمع معزياً لمالك ... قلت: لكن هذا ظاهر إذا أمكن قضاء مالكي به أو تحكيمه أما في بلاد لايوجد فيها مالكي يحكم به فالضروة متحققة، وكأن هذا وجه ما مر عن البزازية والفصولين".

(ردالمحتار علی الدرالمختار،كتاب الطلاق ، باب العدة 3/ 509 ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے :

"وفي التتارخانية: امرأة بلغت فرأت يوماً دماً ثم انقطع عنها الدم حتى مضت سنة ثم طلقها زوجها فعدتها بالأشهر ا هـ . وخرج بقوله: إن لم تحض الشابة الممتد طهرها فلاتعتد بالأشهر وصورتها إذا رأت ثلاثة أيام وانقطع ومضى سنة أو أكثر ثم طلقت فعدتها بالحيض إلى أن تبلغ إلى حد الإياس وهو خمس وخمسون سنة في المختار، كذا في البزازية. ومن الغريب ما في البزازية: قال العلامة: والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة ا هـ .ولو قضى قاض بانقضاء عدة الممتد طهرها بعد مضي تسعة أشهر نفذ كما في جامع الفصولين. ونقل في المجمع: أن مالكاً يقول: إن عدتها تنقضي بمضي حول. وفي شرح المنظومة: أن عدة الممتد طهرها تنقضيبتسعة أشهر، كما في الذخيرة معزياً إلى حيض منهاج الشريعة. ونقل مثله عن ابن عمر، قال: وهذه المسألة يجب حفظها؛ لأنها كثيرة الوقوع. وذكر الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون بقول مالك في هذه المسألة للضرورة خصوصاً الإمام والدي ا هـ"

(البحرالرائق ، کتاب الطلاق ، عدة الحرة ۴/۱۴۲ ط:دارالکتاب الاسلامی)

وفیہ ایضا:

"(قوله ومن عاد دمها بعد الأشهر الحيض) أي: وعدة من اعتدت بالأشهر لإياسها ثم رأت دما الحيض فينتقض ما مضى من عدتها وعليها أن تستأنف العدة بالحيض."

(البحرالرائق ، باب العدة ، عدة من اعتدت بالأشهر لإياسها ثم رأت دما۴/۱۵۰ ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں