بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچہ دانی بند کروانا


سوال

میری عمر 33سال ہے،میری 5 مرتبہ پریگننسی ہو چکی ہے ،3 بچے ہیں اور ایک ابھی expected ہے اپريل میں،دورانِ پریگننسی میری طبیعت بہت خراب رہتی ہے اور خاص طور پر آخری 3ماہ میں چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا کیونکہ مجھے جوائنٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے، اسکا کوئی علاج نہیں ہے اور یہ ہر دفعہ ہوتا ہے، گھر کے کام کاج اور بچوں کو سنبھالنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہےاور ذہنی طور پر اسٹریس میں بھی بہت زیادہ رہتی ہُوں، بچے ابھی 7سال سے چھوٹے ہیں اور میری صحت ایسی ہی کے پریگننسی کے بغیر بھی بہت کمزوری رہتی دماغی بھی اور جسمانی بھی، ان سب کے زیرِ نظر کیا میں پریگننسی روکنے کا آپریشن کروا سکتی ہواس بچےکی پیدائش کےبعد؟ میں نے دوائیاں بھی استعمال کر کے دیکھی ہیں اور ان سے صحت پر منفی اثر پڑتا ہے،نیچرل طریقہ بھی ہر دفعہ کام نہیں کرتا،شوہر میری صحت کو دیکھتے ہوئے اس فیصلے سے متفق ہوں گے اگر اس کی شر عی اجازت ہو تو برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں ۔

جواب

بلاعذر ضبطِ تولید اسلام میں منع ہے، اور عذر میں بھی کوئی ایسی صورت اپنانا قطعاً حرام ہے جس سے قوتِ تولید بالکلیہ ختم ہوجائے،  مثلاً رحم (بچہ دانی)  نکال دینا یا حتمی نس بندی کرادینا وغیرہ۔ نیز طویل عرصے کے لیے پیدائش کا سلسلہ روکنے کے ذرائع اختیار کرنا بھی درست نہیں ہے۔

ہاں،  کسی واقعی عذر، بیماری، شدید کم زوری یا دوسرے بچے کو خطرہ جیسی صورتوں میں بضرورت ایسی مانعِ  حمل تدبیروں کو اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں، اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں،  چنانچہ بچہ دانی میں جال یا رِنگ وغیرہ لگاکر یا شوہر صحبت کے وقت مانع حمل کوئی تدبیر اختیار کرے یعنی عزل کرے یا کنڈوم استعمال کرے تو یہ  وقتی و عارضی طور پر بچوں میں وقفہ کرنے  کا حکم بھی  یہی ہے کہ اگر یہ عمل کسی واقعی عذر  (مثلًا بیماری،  شدید کم زوری یا دوسرے بچے کو خطرہ ہونے وغیرہ جیسی وجوہات)  کی وجہ سے کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے،  ورنہ ناجائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مستقل بنیاد پر بچہ دانی نکلوانا یا بند کروانا شرعاً جائز نہیں، البتہ جب تک مکمل صحت نہیں ہوجاتی اس وقت تک  حمل سے بچنے کی وقتی اور عارضی  تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلك الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾".

(صحیح مسلم، باب جواز الغیلة، وهی وطی المرضع وکراهة العزل، النسخة الهندیة ۱/۴۶۶)

قال الملاعلي القاري:

"قیل: ذلك لایدل علی حرمة العزل، بل علی کراهته."

(مرقاة المفاتيح، کتاب النکاح، باب المباشرة، الفصل الأول، 6/238،ط:امدادیه)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ‌خصاء ‌الآدمي فحرام."

(كتاب الحضر والإباحة، ج: 6، ص: 388، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"[تنبيه] أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء."

(كتاب النكاح، مطلب في حكم العزل، ج:3،ص:176، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں