بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچے کے مال میں زکاۃ قربانی ،اور بچے کا مال گم ہو جانے کا حکم


سوال

1۔ایک عورت نے اپنے چار بچوں کے  لیے دس دس ماشے کے زیورات بنوا کر رکھے ہوئے ہیں ،بچے ابھی نابالغ ہیں ،تو کیا ان کی زکوٰۃ اور قربانی بچوں پر واجب هو گی؟

2۔واضح ہو کہ جو زیورات اس نے بنوائے ہیں، ان میں تقریباً وہ رقم ہے جو پچوں کو ننھیال اور دیگر رشتہ داروں سے مختلف مواقع پر تحفہ كے طور پر ملی تھی، اور ایک بچے کا زیور والدہ سے گم ہو گیا ہے، تو کیا وہ اس کو اپنی طرف سے بنوا  كردے گی کہ نابالغ کے مال میں تصرف کا حق تو اس کو نہیں ہے۔

جواب

1: اگر بچہ  نابالغ ہے اور والدہ نے بچے کے لیے   سونا بنوایا، چاہے وہ سونا بچے کی رقم سے بنایاجائے یاذاتی رقم سے ، وہ بچے کی ملکیت شمار ہوگی ،اور اس پر زکاۃ   وقربانی لازم نہیں۔

2:والدہ کے پاس جو  نابالغ بچوں کے زیورات تھے ان کی حیثیت امانت کی تھی ،اور امانے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس میں لاپراہی اور سستی کام لیا جائے اور وہ ضائع ہو جائے تو اس کا ضمان آتا  ہے ،یعنی امین پر لازم ہے کہ وہ امانت رکھنے والے کو تا وان دے ،لیکن اگر امانت امین کے پاس اس کی تعدی کے بغیر ضائع ہو جائے ،تو امین پر کچھ تاوان لازم نہیں ہو تا ،لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر والدہ  کی لا پرواہی سے  بچے کا زیور گم ہو گیا تو ،والدہ پر  گم شدہ زیور یااس کی قیمت لازم ہو گی ،اور اگر اس نے حفاطت کرنے میں لاپرواہی نہیں کی ،تو پھر اس پر گم شدہ زیور کی قیمت لازم نہیں ہو گی ۔

فتاویٰ شامی میں ہے ؛

"( وشرط افتراضها عقل وبلوغ وإسلام وحرية ) والعلم به ولو حكماً ككونه في دارنا".

(كتاب الزكاة ،ج:2 ،ص:258 ،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے :

"( ولنا ) أنه لا سبيل إلى الإيجاب على الصبي؛ لأنه مرفوع القلم بالحديث ولأن إيجاب الزكاة إيجاب الفعل وإيجاب الفعل على العاجز عن الفعل تكليف ما ليس في الوسع ولا سبيل إلى الإيجاب على الولي ليؤدي من مال الصبي؛ لأن الولي منهي عن قربان مال اليتيم إلا على وجه الأحسن بنص الكتاب وأداء الزكاة من ماله قربان ماله لا على وجه الأحسن لما ذكرنا".

(کتاب الزكاة ،فصل شرائط فرضية الزكاة،ج:2 ،ص:5 ،ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و من المتاخرین من قال لا خلاف بینهم فی الاضحیة انها لاتجب فی مالهما ۔۔۔۔۔۔۔۔الا ان صدقة الفطر خصت عن النصوص فبقیت الاضحیة علی عمومها ،"

(کتاب الاضحیة،ج:5،ص:64،ط:سعید)

 شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:

"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لا يضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها".

( أحكام الوديعة، رقم المادة: 777،ج:2 ،ص:266،ط:مکتبة الطارق)

فقط واللہ أعلم 


فتوی نمبر : 144412101566

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں